ترجمہ اور تفسير سورہ غافر
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
حم ﴿1﴾
حم۔
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿2﴾
یہ کتاب اتاری گئی ہے اللہ کی طرف سے جو زبردست ہے، جاننے والا ہے۔
غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿3﴾
جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ کو قبول کرنے والا، سخت پاداش اور بڑی قدرت والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ﴿4﴾
اللہ کی ان آیات میں وہی لوگ کج بحثیاں کر رہے ہیں جو جزا کے منکر ہیں۔ تو ملک میں ان کا دندنانا تمہیں کسی مغالطہ میں نہ ڈالے۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴿5﴾
ان سے پہلے نوح کی قوم نے تکذیب کی اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی اور ہر امت نے اپنے رسول پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا اور باطل کے ذریعہ سے کج بحثیاں کیں تاکہ اس سے حق کو پسپا کردیں تو میں نے ان کو دھر لیا تو دیکھو میرا عذاب کیسا ہوا !
وَكَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ﴿6﴾
اور اسی طرح تیرے رب کی بات ان لوگوں پر پوری ہوچکی ہے جنہوں نے کفر کیا ہے۔ یہ لوگ دوزخ میں پڑنے والے ہیں۔
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿7﴾
جو(فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اس کی حمد کے ساتھ، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں جو ایمان لائے ہیں۔ اے ہمارے رب، تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جو توبہ کریں اور تیرے راستہ کی پیروی کریں اور ان کو عذاب جہنم سے بچا۔
رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿8﴾
اے ہمارے پروردگار انھیں ہمیشگی کی بہشتوں میں داخل کردے جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو (بہشت کے) لائق ہوں سو انھیں بھی (داخل کردے) ۔ بیشک تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔
وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿9﴾
اور ان کو برے نتائج اعمال سے بچا اور جن کو تو نے اس دن برے نتائج سے بچایا تو وہی ہیں جن پر تو نے رحم فرمایا۔ اور یہی درحقیقت بڑی کامیابی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ ﴿10﴾
جن لوگوں نے انکار کیا، ان کو پکار کر کہا جائے گا، خدا کی بیزاری تم سے اس سے زیادہ ہے جتنی بیزاری تم کو اپنے آپ پر ہے۔ جب تم کو ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے۔
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ ﴿11﴾
وہ کہیں گے اے ہمارے رب آپ نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور آپ نے ہمیں دو مرتبہ زندہ کیا تو ہم اپنے گناہوں پر ( شرمندگی) کے ساتھ اقرار کرتے ہیں ، تو کیا اب یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
ذَٰلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ ﴿12﴾
(ان سے کہا جائے گا کہ) تمہاری یہ حالت اس وجہ سے ہے کہ جب تمہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر کسی کو اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم اس کو مان لیا کرتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اللہ جو بلندو برتر ہے۔
هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَنْ يُنِيبُ ﴿13﴾
وہی تو ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے رزق اتارتا ہے۔ مگر اس سے وہی شخص نصیحت حاصل کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے
فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿14﴾
سو تم لوگ اللہ کو پکارو اس سے خالص اعتقاد رکھ کر گو کافروں کو ناگوار ہو۔
رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ﴿15﴾
وہ اللہ بلند درجوں والا اور عرش کا مالک ہے ۔ وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح ( وحی) نازل کرتا ہے تاکہ وہ ان کو ( قیامت کے دن اللہ کی) ملاقات سے ڈرائے۔
يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴿16﴾
جس دن وہ ظاہر ( بےپردہ) ہوں گے اور ان کو کوئی بات اللہ سے پوشیدہ نہ ہوگی (اس دن آواز دی جائے گی کہ) آج بادشاہت کس کے لیے ہے؟ (سب کہیں گے) اللہ کے لیے جو ایک ہے اور زبردست (قوت و طاقت والا ہے)
الْيَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿17﴾
(فرمایا جائے گا کہ) آج ہر شخص کو اس کے ( اچھے یا برے) اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔ آج کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہوگی ۔ بیشک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ ﴿18﴾
اور آپ انھیں ایک قریبی مصیبت والے دن سے ڈرائیے جب کلیجے منہ کو آجائیں گے (غم سے) گھٹ گھٹ جائیں گے ظالموں کا نہ کوئی ولی دوست ہوگا اور نہ سفارشی جس کی بات مان ہی لی جائے۔
يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ﴿19﴾
وہ نگاہوں کی چوری بھی جانتا ہے اور ان بھیدوں کو بھی جو سینے چھپائے ہوئے ہیں۔
وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿20﴾
اور اللہ ٹھیک ہی فیصلہ کرے گا، اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی طرح کا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے، اللہ ہی (سب کچھ) سننے والا ہے (سب کچھ) دیکھنے والا ہے۔
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ ﴿21﴾
کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں ؟ (اگر چلتے تو) دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے ( نافرمان) تھے ان کا انجام کیسا ہوا ؟ وہ قوت و طاقت میں ان سے بھی زیادہ تھے اور زمین میں ( اپنے آثار ، کھنڈرات) نشانیوں کے اعتبار سے بھی ( بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں) پھر اللہ نے ان کو ان کے گناہوں ( کفر و شرک) کے سبب پکڑ لیا اور اس وقت ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿22﴾
یہ (گرفت) اس لیے ہوئی کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر واضح دلیلیں لاتے رہے، اس پر بھی وہ کفر ہی کئے گئے، سو اللہ نے انھیں پکڑ لیا، بیشک وہ بڑی قوت والا ہے، سخت سزا دینے والا ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ ﴿23﴾
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ بھیجا
إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿24﴾
فرعون ، ہامان اور قارون کی طرف۔ جنہوں نے کہا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو ( نعوذ باللہ) جادو گر ہے بڑا جھوٹا ہے۔
فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴿25﴾
پس جب وہ آیا ان کے پاس، ہمارے پاس سے حق لے کر، انھوں نے کہا ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو، اور ان کافروں کی چال بالکل رائیگاں گئی۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴿26﴾
اور فرعون نے کہا، مجھے چھوڑو، میں موسیٰ کو قتل کئے دیتا ہوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں بغاوت نہ پھیلا دے۔
وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ﴿27﴾
اور موسیٰ نے کہا میں نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لی ہر اس متکبر کے شر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔
وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ﴿28﴾
اور فرعون کی قوم میں سے ایک مرد مومن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا ہے۔ اگر وہ ( موسیٰ (علیہ السلام) جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا (وبال) اس پر پڑے گا ۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو وہ جو تم سے وعدہ کر رہا ہے اس کا کچھ تمہیں ضرور پہنچے گا بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں اور جھوٹے لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴿29﴾
اے میرے بھائیو ! آج تمہاری سلطنت ہے کہ اس سرزمین میں تم حاکم ہو لیکن اللہ کے عذاب سے نہیں کون بچائے گا اگر وہ ہم پر آپڑا۔ فرعون نے کہا میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دوں گا جو خود سمجھ رہا ہوں اور میں تو تم کو عین طریق مصلحت ہی بتاتا ہوں۔
وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ ﴿30﴾
اور جو ایمان لایا تھا اس نے کہا، اے میر ہم قومو ! میں تم پر اسی طرح کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں جس طرح کا عذاب گروہوں پر آیا۔
مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ ﴿31﴾
جیسا حال قوم نوح (علیہ السلام) ، قوم عاد اور قوم ثمود کا ہوا اور وہ جو ان کے بعد آئے۔ اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔
وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ ﴿32﴾
اور اے میری قوم ! میں تم پر چیخ و پکار کے اس دن سے ڈرتا ہوں
يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۗ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿33﴾
جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اور تم کو خدا سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اور جس کو خدا گمراہ کر دے تو اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں بن سکتا۔
وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ ﴿34﴾
اور یوسف اس سے پہلے واضح تعلیمات کے ساتھ آئے تو تم ان کی لائی ہوئی باتوں کی طرف سے برابر شک ہی میں رہے۔ یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو تم نے سمجھا کہ اب اللہ کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے جو حدود سے تجاوز کرنے والے اور شبہات میں پڑے رہنے والے ہوتے ہیں۔
الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ﴿35﴾
جو اللہ کی آیات کے باب میں کٹ حجتی کرتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ اور اہل ایمان کے نزدیک وہ نہایت مبغوض ہیں۔ اسی طرح اللہ مہر کردیا کرتا ہے ہر متکبر وجبار کے دل پر
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ ﴿36﴾
اور فرعون نے کہا اے ہامان میرے لیے ایک بلند عمارت بنوا کہ میں (اس سے) آسمان پر جانے کی راہوں تک پہنچ جاؤں
أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ ﴿37﴾
(آسمان کے) راستوں تک۔ تاکہ میں موسیٰ کے رب کو جھانک کر دیکھوں اور بیشک میں اس کو جھوٹا (آدمی) سمجھتا ہوں اور اس طرح فرعون کے بد ترین اعمال (اس کی نظروں میں) اسے خوبصورت بنا کر دکھا دیئے گئے اور اسکو سیدھے راستے سے روک دیا گیا اور فرعون کی ہر تدبیر (ہر کوشش) اس کو تباہی (کے کنارے تک پہنچانے کا سبب) تھی۔
وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴿38﴾
اور وہ شخص جو ایمان لا چکا تھا اس نے کہا کہ اے میری قوم ! تم میرا کہا مانو ۔ میں تمہیں بھلائی کا راستہ دکھانا چاہتا ہوں۔
يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ ﴿39﴾
اے میرے بھائیو یہ دنیوی زندگی محض چند روزہ ہے اور ٹھہرنے کا ٹھکانا تو آخرت ہی ہے۔
مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿40﴾
جس نے کوئی برا عمل کیا اسے اسی جیسا بدلہ ملے گا اور جس نے عمل صالح کیا خواہ وہ مراد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو یہ لوگ ہیں جو ایسی جنتوں میں داخل ہوں گے جن میں بےحساب رزق دیا جائے گا۔
وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ ﴿41﴾
اے میری قوم (کے لوگو!) کیسی عجیب بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلا رہے ہو
تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ ﴿42﴾
تم مجھے اس طرف بلا رہے ہو کہ میں اللہ کا انکار کر دوں اور انھیں شریک ٹھہراؤں جن کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ جب کہ میں تمہیں اس اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہوں جور زبردست اور معاف کرنے والا ہے۔
لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ﴿43﴾
یہ یقینی بات ہے کہ جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو وہ پکارے جانے کے قابل نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں اور یہ بھی کہ ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور یہ بھی کہ حد سے نکل جانے والے سب دوزخی ہی ہوں گے۔
فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ﴿44﴾
تو تم عنقریب ان باتوں کو یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرتا ہوں۔ بیشک اللہ ہی بندوں کا نگران حال ہے۔
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ﴿45﴾
پھر اللہ نے اس (مومن) کو ان لوگوں کی مضر تدبیروں سے محفوظ رکھا اور اہل فرعون کو موذی عذاب نے گھیرلیا
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ﴿46﴾
وہ لوگ صبح وشام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت قائم ہوگی (یہ کہا جائے گا) اہل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کرو۔
وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِنَ النَّارِ ﴿47﴾
اور جبکہ (کافر) دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو ادنی درجہ کے لوگ بڑے درجہ کے لوگوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے ہی تابع تھے تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی جز ہٹا سکتے ہو؟۔
قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ ﴿48﴾
بڑے لوگ کہیں گے کہ ہم سب ہی اس میں (پڑے) ہیں اللہ تو اب بندوں کے درمیان (قطعی) فیصلہ کرچکا۔
وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ ﴿49﴾
اور جو لوگ آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ دوزخ کے پہرہ داروں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ کسی دن تو ہم سے عذاب ہلکا کردے۔
قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴿50﴾
(پہرہ دار) کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلی نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے ؟ وہ کیں گے کہ جی ہاں ( آئے تھے) ( فرشتے ) کہیں گے کہ تم ہی دعا کرو لیکن ان کفار کی دعا اور پکار فضول ہی رہے گی۔ (کوئی فائدہ نہ دے گی)
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ﴿51﴾
بیشک ہم اپنے رسولوں اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ہیں دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی (مدد کریں گے) جب گواہی دینے والے (فرشتے) کھڑے ہوں گے۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴿52﴾
اس دن جب کہ ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور ان کے لیے لعنت ہوگی اور ان کے لیے بدترین ٹھکانا ہو گا
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَىٰ وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ ﴿53﴾
اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو ہدایت عطا فرمائی اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا،
هُدًى وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿54﴾
جس میں عقلمندوں کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ ﴿55﴾
سو آپ صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اور معافی مانگئے اپنی کوتاہی کی اور اپنے پروردگار کی تسبیح وحمد شام اور صبح کرتے رہئے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿56﴾
جو لوگ اللہ کی آیات کے باب میں، بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو، کٹ حجتی کر رہے ہیں، ان کے دلوں میں پس ایک گھمنڈ سمایا ہوا ہے جس میں وہ کبھی بامراد ہونے والے نہیں ہیں تو تم اللہ کی پناہ مانگو، وہی حقیقی سننے دیکھنے والا ہے۔
لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿57﴾
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا آدمیوں کے پیدا کرنے سے یقیناً بڑھ کر (کام) ہے لیکن اکثر آدمی (اتنی بات بھی) نہیں سمجھتے۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿58﴾
ایک اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہو سکتا اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کئے اور وہ لوگ جنہوں نے برے کام کئے وہ دونوں بھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ تم میں سے بہت کم لوگ اس پر دھیان دیتے ہیں
إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿59﴾
قیامت تو آ کر رہے گی جس میں کسی طرح شک ( کی گنجائش ) نہیں ہے ، لیکن اکثر لوگ وہ ہیں جو یقین نہیں رکھتے ہیں
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿60﴾
اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے
اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿61﴾
اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں سکون حاصل کرسکو ۔ اور اسی نے دن کو دیکھنے بھالنے کے لیے روشن کیا ۔ بیشک لوگوں پر اللہ کا یہ فضل و کرم ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿62﴾
یہی تو اللہ ہے تمہارا پروردگار ہر شے کا پیدا کرنے والا اس کے سوا کوئی خدا نہیں سو تم لوگ کہاں بھٹکے جارہے ہو۔
كَذَٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ ﴿63﴾
اسی طرح وہ لوگ بھی بھٹکتے رہے ہیں جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے رہتے تھے۔
اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿64﴾
اللہ تو وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو قرار و سکون ( کی جگہ بنایا) ہے ۔ اور آسمان کو (محفوظ) چھت کی طرح ۔ پھر اسی نے تمہارا خوبصورت ناک نقشہ بنایا ۔ اس نے تمہیں کھانے کے لیے بہترین رزق عطا کیا ۔ یہ ہے تمہارا رب اللہ جو بڑی شان والا ہے
هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿65﴾
وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں سو تم اسی کو پکارا کرو خالص اعتقاد کرکے ساری خوبیاں اللہ پروردگار عالم ہی کے لیے ہیں۔
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِنْ رَبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿66﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ مجھے اس سے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ۔ جب کہ میرے پاس میرے رب کی کھلی نشانیاں آ چکی ہیں۔ اور (آپ کہہ دیجئے کہ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ صرف اللہ رب العالمین کے سامنے اپنی گردن کو جھکاؤں ۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّىٰ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿67﴾
وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر خون کی ایک پھٹکی سے۔ پھر وہ تم کو وجود میں لاتا ہے ایک بچہ کی صورت میں۔ پھر وہ تم کو پروان چڑھاتا ہے کہ اپنی جوانی کو پہنچو پھر وہ تم کو مہلت دیتا ہے کہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور بعض کو مہلت دیتا ہے کہ تم ایک مدت معین پوری کرو۔ اور یہ اس لیے ہے کہ تم سمجھو۔
هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿68﴾
وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پھر جب وہ فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ کہتا ہے ” ہوجا “ اور پھر وہ ہوجاتا ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّىٰ يُصْرَفُونَ ﴿69﴾
کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے رہتے ہیں، یہ کہاں پھرے چلے جارہے ہیں۔
الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿70﴾
جنہوں نے اللہ کی کتاب کو جھٹلایا اور ان چیزوں کو بھی جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا، وہ عنقریب جانیں گے
إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ ﴿71﴾
جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور (ان کے پاؤں میں) زنجیریں ہوں گی، اور ان کو گھسیٹا جا رہا ہو گا۔
فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ ﴿72﴾
پانی میں لے جایا جائے گا پھر یہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔
ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ ﴿73﴾
پھر ان سے پوچھا جائے گا، کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا شریک ٹھہراتے تھے۔
مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ ﴿74﴾
وہ (نہایت سے بسی سے) کہیں گے وہ تو ہم سے غائب ہی ہوگئے (اور ایسا لگتا ہے جیسے) اس سے پہلے ہم ان کو پکارتے ہی نہیں تھے۔ اس طرح اللہ کافروں کو بھٹکا کر رہے گا۔
ذَٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ ﴿75﴾
یہ (سزا) اس کی ہے کہ تم دنیا میں ناحق خوشی مناتے تھے اور اس کی کہ تم اترایا کرتے تھے۔
ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ﴿76﴾
جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہنے کے لئے۔ کیا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کا !
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ ﴿77﴾
سو آپ صبرکیجئے، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر جس کا ہم ان سے وعدہ کررہے ہیں اگر اس میں سے کچھ تھوڑا ہم آپ کو دکھلا دیں یا آپ کو وفات دے دیں سو (بہرحال) ہمارے ہی پاس انھیں آنا ہوگا۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ ﴿78﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے جن میں بعض ( انبیاء کرام) کے واقعات کو ہم نے بیان کردیا ہے اور بعض واقعات کو ہم نے بیان نہیں کیا ( لیکن یہ بات آپ دیکھیں گے کہ) کوئی بھی رسول اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا ۔ پھر جب فیصلہ ہوگا تو ٹھیک ٹھیک ہی فیصلہ ہوگا اور اس وقت یہ باطل پرست سخت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔
اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿79﴾
اللہ ہی وہ ہے جس نے تمہارے لیے مویشی بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور تم ان میں سے بعض کو کھاتے بھی ہو۔
وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ ﴿80﴾
اور تمہارے لیے ان میں (اور بھی) فائدے ہیں اور تاکہ تم ان پر (سوار ہوکر) اپنے دلوں کے مقصد تک پہنچو اور تم ان پر اور کشی پر لدے لدے پھرتے ہو۔
وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ ﴿81﴾
وہی تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ پھر تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے؟
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿82﴾
کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں جو دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پیشتر ہوئے ہیں، ان کا کیا انجام ہوا ہے وہ لوگ ان سے زیادہ تھے تعداد میں اور (ان سے) بڑھ کر تھے قوت میں اور زمین پر جو اپنی یادگاریں چھوڑ گئے ہیں ان کے لحاظ سے بھی، لیکن ان کی یہ کمائی ان کے کچھ بھی کام نہ آئی۔
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿83﴾
غرض جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ اس علم پر (بڑے) نازاں ہوئے جو انھیں حاصل تھا اور ان پر وہ (عذاب) آپڑا جس پر وہ تمسخر کرتے تھے۔
فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ ﴿84﴾
پھر جب انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لے آئے۔ اور ہم ان ( تمام چیزوں) کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہم ( اللہ کا) شریک ٹھہرایا کرتے تھے۔
فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ ﴿85﴾
سو انھیں ان کا (یہ) ایمان کچھ نفع نہ پہنچا سکا، جبکہ انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھ لیا، اللہ نے اپنا یہی معمول مقرر کیا ہے جو اس کے بندوں میں ہوتا چلا آیا ہے اور اس وقت کافر خسارہ میں رہ گئے۔
تعارف سورة غافر
یہاں سے سورة احقاف تک ہر سورت حٰمٓ کے حروف مقطعات سے شروع ہورہی ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا ان حروف کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چونکہ یہ سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہورہی ہیں اس لیے ان کو حوامیم کہا جاتا ہے، اور ان کے اسلوب میں عربی بلاغت کے لحاظ سے جو ادبی حسن ہے اس کی وجہ سے انھیں عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کا لقب بھی دیا گیا ہے، یہ تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، اور آخرت کے مضامین پر زور دیا گیا ہے، کفار کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور کفر کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے، اور بعض انبیائے کرام کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، اس پہلی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آیت ٢٨ سے ٣٥ تک فرعون کی قوم کے ایک ایسے مرد مومن کی تقریر نقل فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنا ایمان تک چھپایا ہوا تھا، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور ان کے رفقاء پر فرعون کے مظالم بڑھنے کا اندیشہ ہوا، اور فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انھوں نے اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کرتے ہوئے فرعون کے دربار میں یہ موثر تقریر فرمائی، اسی مرد مومن کے حوالے سے اس سورت کا نام بھی مومن ہے اور اسے سورة غافر بھی کہتے ہیں غافر کے معنی ہیں معاف کرنے والا، اس سورت کی ابتدائی آیت میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے سورت کی پہچان کے لیے اس کا ایک نام غافر بھی رکھا گیا۔
﴿غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيْدِ الْعِقَابِ ۙ ذِي الطَّوْلِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ﴾
اس آيت ميں اللہ تعالیٰ کی چھ صفات ہیں، اور صفات الہٰیہ دو قسم پر ہیں: (١) صفات جلالیہ، (٢) صفات جمالیہ۔
صفات جلالیہ وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضگی کا ذکر ہے۔
اور صفات جمالیہ ہو ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے انعام و رحمت اور معافی کے اعلان کا ذکر ہے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ عزیز ہے یعنی زبردست ۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ علیم ہے یعنی ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ کفر وشرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ گناہ کبیرہ توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں اور بغیر توبہ کے بھی اللہ تعالیٰ محض اپنی رحمت سے معاف فرما دیتے ہیں۔ مگر معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ گناہ کبیرہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ گناہ کبیرہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف نہیں کرے گا۔
سوال: اللہ تعالیٰ یہاں جتنی بھی اپنی صفات بیان فرمائی ہیں ان میں کسی کے درمیان واؤ کو ذکر نہیں فرمایا مگر ”غافر الذنب وقابل التوب“ کے درمیان واؤ کو کیوں ذکر فرمایا ہے ؟ جواب : اگر واؤ کو ذکر نہ کرتے تو سمجھنے والا سمجھتا کہ گناہوں کو معاف کرنا اور توبہ کو قبول کرنا ایک چیز ہے مطلب یہ ہے کہ توبہ کروگے تو گناہ بخشے جائیں گے وگرنہ نہیں اس لیے درمیان میں واؤ کو ذکر کیا کہ توبہ سے بھی گناہ معاف ہوتے ہیں اور بغیر توبہ محض رحمت الہٰیہ سے بھی گناہ معاف ہوتے ہیں واؤ کے ذریعہ عطف ڈال دیا اور عطف مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔ (بیضاوی)
سوال: ”غافر الذنب وقابل التوب“ اور ”ذی الطول“ صفات جمالیہ ہیں تو درمیان میں ”شدید العقاب“ صفت جلالی کو ذکر کیا ترتیب کو قائم کیوں نہیں رکھا ؟ جواب اس میں ایک نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ میرا جمال میرے جلال پر غالب ہے حدیث شریف میں ہے ” ان رحمتی وسعت غضبی “۔ اور چوتھی صفت : یہ ہے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے، پانچویں صفت : یہ ہے کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے، چھٹی صفت (رح) یہ ہے کہ وہ قدرت والا ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ ”شدید“ صفت مشبہ ہے اور صفت مشبہ میں دوام بھی ہو تو معرفہ کا فائدہ نہیں دیتا، تو یہ معرفہ کی صفت کیسے بنا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ” شدید “ صفت مشبہ ہے مگر فاعل کے معنی میں ہے اور جب فاعل کے معنی میں ہو اور فاعل میں دوام و استمرار کا معنی ہو تو یفید المعرفة.(روح المعانی: ص، ٤٠٤، ج: ٢٤)
﴿مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ﴾
اس آیت میں جدال فی القرآن کو کفر قرار دیا ہے۔ (مظہری: ص: ٢٤٢، ٢٤٣، ج: ٨)
حدیث میں ہے کہ ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت قرآن کریم میں جھگڑ رہے تھے ، آپ نے غصہ فرمایا، اور باہر تشریف لائے کہ آپ کے چہرے مبارک سے غصہ کے آثار محسوس ہو رہے تھے اور فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اسی سے ہلاک ہوئیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جدال کرنے لگی تھیں۔ (مظہری: ص: ٢٤٢، ج: ٨، مدارک: ص: ٦٥، ج: ٤)
یہ جھگڑا جس کو قرآن کریم اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کفر قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآنی آیات پر طعن وتشنیع کرنا، اور فضول قسم کے شبہات پیدا کرنا، یا کسی آیت قرآنی کے ایسے معنی بیان کرنا جو دوسری آیات قرآنی اور نصوص سنت کے خلاف ہوں جو تحریف قرآن کے، درجہ میں ہوں ورنہ کسی مبہم یا مجمل کلام کی تحقیق یا مشکل کلام کا حل تلاش کرنا یا کسی آیت سے احکام و مسائل کے استنباط میں آپس میں تحقیق تمحیص کرنا اس میں داخل نہیں ہے بلکہ اس میں تواجرو ثواب ہے۔ (مظہری: ص: ٢٤٢، ج: ٨، قرطبی: ص: ٢٥٧، ج: ١٥، مدارک: ص: ٦٥، ج: ٤)
فلا یغررک الخ : ان کفار کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ مطلب یہ ہے کہ کفار کی عیش وعشرت اور آرام و آسائش کی زندگی یہ سہولتیں ان کے اچھے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اور وہ جب چاہے گا انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
﴿قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ﴾
قتادہ اور صحاک، حضرت ابن عباس (رض) اور ابو مالک بیان کرتے ہیں کہ لوگ اپنے آئاء کی پشتوں میں (نطفہ کی صورت میں) مردہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں زندہ کیا، پھر ان کو دنیا میں موت دی، پھر قیامت کے دن ان کو احساب کتاب کے لیے زندہ کرے گا۔
اور سدی نے بیان کیا : اس کو دنیا میں موت دی گئی، پھر ان کو قبر میں زندہ کیا گیا اور ان سے سوال کیا گیا اور خطاب کیا گیا، پھر اس کے بعد ان کو قبر میں موت دی جائے گی، پھر ان کو آخرت میں زندہ کیا جائے گا۔
ابن زید نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے لوگوں کو نکال کر ان کو موت دی، پھر ان کی ماؤں کے رحموں میں ان کو زندہ کیا پھر دنیا میں ان کو موت دی، پھر آخرت میں ان کو زندہ کرے گا۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٦١۔ ٦٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ، علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی المتوفی ٦٦٨ ھ اور دیگر مفسرین نے دو موتوں اور دو حیاتوں کے یہی محمل بیان کیے ہیں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٤٦، الجامع لاحکام القرآن ص ٢٦٦۔ ٢٦٥ )
حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤، حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے بھی بغیر کسی ترجیح اور بحث کے ان تین اقوال کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٨٠، الدرالمنثور ج ٧ ص ٢٤٠، روح البیان ج ٨ ص ٢٢٠ )
وہ کافر لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم جو دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کیا کرتے تھے اب ہم کو اپنی غلطی معلوم ہوگئی ہے چنانچہ دیکھ لیا کہ آپ نے ہم کو دو مرتبہ مردہ رکھا ایک مرتبہ پیدائش سے پہلے کہ ہم بےجان مادہ کی صورت میں تھے اور دوسری مرتبہ اس عالم میں آنے اور زندہ ہونے کے بعد متعارف موت سے زندہ ہوئے اور دوسری زندگی دی ایک دنیا کی زندگی اور دوسری آخرت کی زندگی۔ یہ چار حالتیں ہیں جن میں سے انکار تو صرف ایک یعنی آخرت کی زندگی کا تھا مگر باقی تین حالتیں کا ذکر اس لیے کردیا کہ وہ یقینی تھیں اور اس اقرار کا مقصد یہ تھا کہ اب چوتھی قسم بھی پہلی تین کی طرح یقینی ہوگی۔ (بیان القرآن)
حیات مطلقہ کا بیان
اس آیت میں جس حیات کا ذکر ہے وہ حیات مطلقہ، حیات کاملہ اور پوری حیات ہے اور ایسی حیات یا تو دنیا میں ہوتی ہے اور یا قیامت کے دن ہوگی اور اس حیات کی علامت یہ ہے کہ اس میں روح تمام بدن میں سرایت کئے ہوئے ہوتی ہے اور روح بدن کی تدبیر اور اس میں تصرف کرتی ہے اور ایسی مطلق اور کامل حیات میں بدن کو عادۃً خوراک وغیرہ کی حاجت پڑتی ہے اور بدن میں حس و حرکت ہوتی ہے جس کا بخوبی لوگ مشاہدہ کرسکتے ہیں اور ایسی حیات صرف دو دفعہ ہوگی دنیا میں اور آخرت میں رہی قبر اور برزخ کی حیات تو وہ مطلق اور کامل حیات نہیں بلکہ فی الجملہ اور نوح من الحیاۃ اس میں روح کا اتصال ربط اور تعلق بدن عنصری کے اہم اجزاء کے ساتھ ہے جن سے فہم و شعور اور ادراک ہو سکے اور قبر کی راحت و کلفت کا ادراک ہو سکے اور اس حیات میں بدن عنصری نہ تو خوراک اور لباس وغیرہ کا محتاج ہوتا ہے اور نہ ظاہری طور پر حس و حرکت اور جنبش کرتا ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکے اور اسی معنی کو نہ سمجھتے ہوئے معتزلہ وغیرہ باطل فرقوں کو عذاب قبر اور راحت قبر کے بارے میں بڑی الجھنیں پیدا ہوئی ہیں مگر حقیقت کو وہ نہیں پا سکے اور اہل حق سنت کی پیروی کی بدولت اس راز کو پاگئے ہیں اور ان کے لیے اس میں کوئی دقت باقی نہیں رہی۔
چنانچہ حافظ ابن القیم نے ابن حزم (رح) کا یہ اعتراض نقل کر کے یہ جواب دیا ہے کہ:
قلت مَا ذكره أَبُو مُحَمَّد فِيهِ حق وباطل أما قَوْله من ظن أَن الْمَيِّت يحيا فِي قَبره فخطأ فَهَذَا فِيهِ إِجْمَال أَن أَرَادَ بِهِ الْحَيَاة الْمَعْهُودَة فِي الدُّنْيَا الَّتِي تقوم فِيهَا الرّوح بِالْبدنِ وتدبره وتصرفه وتحتاج مَعهَا إِلَى الطَّعَام وَالشرَاب واللباس فَهَذَا خطأ كَمَا قَالَ والحس وَالْعقل يكذبهُ كَمَا يكذبهُ النَّص
وَإِن أَرَادَ بِهِ حَيَاة أُخْرَى غير هَذِه الْحَيَاة بل تُعَاد إِلَيْهِ إِعَادَة غير الْإِعَادَة المألوفة فِي الدُّنْيَا ليسأل ويمتحن فِي قَبره فَهَذَا حق ونفيه خطأ وَقد دلّ عَلَيْهِ النَّص الصَّحِيح الصَّرِيح وَهُوَ قَوْله فتعاد روحه فِي جسده. الروح (ص: 43)
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ ابو محمد بن حزم (رح) کے اس قول میں حق بھی ہے باطل بھی ہے ان کا یہ کہنا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں میت قبر میں زندہ کی جاتی ہے غلط ہے اس میں اجمال ہے اگر ابن حزم (رح) اس زندگی سے دنیا کی معہور زندگی مراد لیتے ہیں جس میں روح بدن میں قوام اور اس کی تدبیر اور تصرف کرتی ہے اور اس میں کھانے پینے اور لباس کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے حیات کا قول ہے جیسا کہ ابن حزم (رح) کہتے ہیں اور حس و عقل اور نص اس کی تکذیب کرتی ہے اور اگر قبر کی حیات سے اس معہود حیات کے علاوہ کوئی اور حیات مراد ہو جس میں روح بدن کی طرف لوٹائی جائے لیکن یہ اعادہ دنیا کی معہودہ زندگی کے اعادہ کے علاوہ ہوتا ہے کہ قبر میں اس کا سوال اور امتحان ہو سکے تو ایسی حیات حق ہے اس کی نفی غلط ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح اور صریح حدیث اس پر دال ہے کہ روح جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔
جب اہل حق کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبر اور برزخ میں حیات حاصل ہے اور آپ کی روح مبارک کا تعلق آپ کے جسد مبارک کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیوی جسم کے ساتھ حیات حاصل ہے تو مخالفین کہتے ہیں پھر یہ تو تیسری حیات ہوگی حالانکہ قرآن کریم میں دو موتیں اور دو حیاتوں کا ذکر ہے۔
جواب : (١) :۔ جب ان عقائد و نظریات کو بغور دیکھا جائے تو واضح معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات تین حیاتیں اور تین موتوں کے قائل ہیں وہ اس طرح کہ جب آپ کی روح مبارک جسم کا فوری و نورانی میں داخل ہوگی تو تیسری حیات نمودار ہوگی اور جب اس سے روح اقدس کو نکالا جائے گا تو تیسری موت وجود میں آجائے گی لہٰذا ہمیں دو موتیں اور دو حیاتوں کا طعن دینے کی بجائے اپنے عقائد پر نظرثانی کریں۔
جواب : (٢) :۔ چونکہ قبروبرزخ کی زندگی کوئی مستقل زندگی نہیں ہے بلکہ وہ یا تو دنیا کی زندگی کا تتمہ ہے یا آخرت کی زندگی کا مقدمہ ہے اس لیے اس کا ذکر الگ نہیں کیا، اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)
فھل الیٰ خروج الخ مجرین کی تمنا : پس ہے نکلنے کا کوئی راستہ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں چلے جائیں اور اپنے سابقہ اعمال کی تلافی کر کے واپس آجائیں فرمایا ایسا ناممکن ہے۔
﴿رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِه عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِه لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ﴾
رفیع الدرجت: یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ حضرات مفسرین نے اس کے دو معنی بیان کئے ہیں: پہلا معنی یہ ہے کہ وہ درجات کو بلند کرنے والا ہے جو مومن بندے نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں قیامت کے دن ان کے درجات بلند کرے گا اور اس دنیا میں بھی اس نے اپنے بندوں میں فرق و مراتب رکھے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ” ورفعنا بعضھم فوق بعض درجت “ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرتفع الدرجات ہے یعنی عظم الصفات ہے۔
یلقي الروح: یہاں روح سے مراد وحی ہے یعنی وحی کو اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اتارتا ہے وحی کو روح اس لیے فرمایا ہے کہ جس طرح روح کے ذریعہ حیات حاصل ہوتی ہے اسی طرح وحی کے ذریعہ بھی دلوں کو حیات حاصل ہوتی ہے۔ (روح المعانی : ص : ٤٢٢: ج : ٢٤)
اور لفظ ”من أمرہ“ کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ روح کا بیان اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ”من“ ابتدائیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ روح یعنی وحی کا نازل ہونا اس کے حکم سے ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ روح سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنا حکم پہنچانے کے لیے نازل فرماتا ہے۔ (روح المعانی: ص: ٤٢٢، ٤٢٣، ج ٢٤)
چنانچہ قتادہ (رح) کے نزدیک اس سے مراد وحی ہے۔ جب کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے جو قلوب میں ایسے جاری ہوتا ہے جیسے روح جسم میں جاری ہوتی ہے جب کہ امام تفسیر ضحاک (رح) نے اس کی تفسیر ” جبرائیل (علیہ السلام) “ سے کی ہے یعنی روح سے وہ مراد ہیں کیونکہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) چونکہ علوم الہٰیہ کا القاء قلوب پر کرتے ہیں لہٰذا وہ دلوں کی حیات ہوئے۔ جب کہ امام ابن عطیہ (رح) نے کہا ہے کہ اس سے ہر وہ نعمت مراد لی جاسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور ہدایت یافتہ بندوں پر ایمان کی تفہیم کے سلسلہ میں نازل فرماتا ہے۔
نیز آیت میں لفظ ”یلقي“ سے استمرار تجددی مفہوم ہوتا ہے یعنی یہ القاء روح سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر جناب سرور کونین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ اقدس تک تسلسل کی ساتھ جاری رہا اور وہ قیام قیامت تک ہر اس شخص پر متصلاً جاری رہے گا جو دعوت دین پر قائم رہے گا۔ جیسے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : إن اللہ تعالیٰ یبعث لھذہ الأمة علی رأس کل مائة سنة من یجدد لھا دینھا.
﴿يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ﴾
حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا: ” بعض لوگوں کے پاس سے ایک عورت گزرتی ہے ان میں سے ایک شخص یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس عورت کو نہیں دیکھ رہا مگر وہ نظریں چرا کر اسے دیکھ رہا ہوتا ہے یہ خائنة الأعین (خیانت کار آنکھ) ہے جو اللہ کو معلوم ہے اور اللہ کے سینوں کے چھپے راز جانتا ہے۔ (ابن ابی حاتم جلد 10 صفحۃ 3265 حدیث 18428)
بدنظری کی برائی
اسی لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالفْؤادُ کُلُّ اُولٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً: کہ کان، آنکھ اور دل کے بارہ میں ضرور سوال کیا جائے گا “ (بنی اسرائیل۔ 36) اور مومن مردوں اور عورتوں کو نظریں پست رکھنے یعنی برائی اور بےحیائی کی طرف نظر نہ اٹھانے کا حکم فرمایا گیا۔ (نور۔ 30ٌ) اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لک الاولیٰ ولیس لک الثانیۃ ” تمہارے لیے پہلی نظر حلال ہے (جو بےقصد اٹھ جائے) اور دوسری نظر حلال نہیں۔ “ (ابوداود کتاب النکاح باب 43)
﴿فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْٓا اَبْنَاۗءَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَه وَاسْتَحْيُوْا نِسَاۗءَهُمْ ۭ وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عوام کی طرف آمد
اس پر اشکال ہوتا ہے کہ پہلے فرمایا: ”أرسلنا موسیٰ“ ہم نے موسیٰ کو بھیجا تو انھوں نے ساحرو کذاب کہا پھر آگے فرمایا: ”فلما جاءھم بالحق“ اس میں فاء تعقبیہ ہے تو اس میں تکرار لازم آیا ہے؟
تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ جو حضرت تھانوی (رح) نے بیان القرآن میں لکھا ہے کہ پہلا آنا خواص کے پاس تھا یعنی ارکان سلطنت کے پاس اور دوسرا آنا عوام کے پاس تھا تو اس لیے تکرار لازم نہیں آتا۔
حضرت تھانوی لکھتے ہیں: یہ قول فرعون، ہامان اور قارون تینوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے مگر قارون چونکہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور بظاہر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتا تھا اس کا ان کو ساحر کہنا بظاہر مستبعد ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ اس وقت بھی منافق ہو موسیٰ (علیہ السلام) پر ظاہر میں ایمان کا دعویٰ کرتا ہو حقیقتا نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قول صرف فرعون و ہامان کا ہو تغلیباً تینوں کی طرف نسبت کردی گئی ہو۔ (بیان القرآن)
دوسرا جواب علامہ آلوسی (رح) نے لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلی مرتبہ ان کے پاس گئے تو انھوں نے بطور توہین کے ساحر و کذاب کہا تو عقل کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے پاس دوبارہ نہ جاتے مگر استقلال موسوی کو دیکھیں باوجود توہین کے حق کو نہیں چھوڑا بلکہ جاتے رہے۔
فرعونیوں کی تجاویز
قالوا اقتلوا ابناء الذین۔۔ الخ سلسلہ قتل دو مرتبہ ہوا: (١)کاہنوں اور نجومیوں نے فرعون کے خواب کی تعبیر دی یعنی ولادت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل (٢) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تھے اور کچھ لوگ متاثر ہوتے جارہے تھے تو باہم مشورہ کر کے کہنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ان کے لڑکوں کو قتل کر دو اور ان کی عورتوں کو باقی رکھو یعنی سابقہ عمل پھر دہرایا جائے تاکہ ان کا کوئی بچہ ایسی پرورش نہ پاجائے جو فرعونی حکومت کو تہہ وبالا کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ (روح المعانی: ص: ٤٣١، ج: ٢٤)
﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّه﴾
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑ دو ۔
شاید اس کے ارکان سلطنت مار ڈالنے کا مشورہ نہ دیتے ہوں گے کیونکہ وہ معجزہ دیکھ کر ڈرگئے تھے لیکن اس کا رب بدلہ نہ لے لے۔ فرعون خود بھی دل میں ڈرا ہوا اور سہما ہوتا تھا مگر لوگوں پر اپنی قوت وباری کا اظہار کرنے کے لیے انتہائی درجہ کی شقاوت اور بےحیائی سے ایسا کہہ رہا تھا۔ تاکہ لوگ سمجھیں کہ اس کو قتل سے کوئی چیز مانع نہیں۔ اور اس کے ارادہ کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ (موضح القرآن)
﴿وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ﴾
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حقیقی رب کی پناہ لی۔ فرمایا مجھے ان کی دھمکیوں کی مطلقاً کوئی پروا نہیں فرعون اکیلا تو کیا ساری دنیا کے متکبر اور جبار ین جمع ہوجائیں تب بھی میرا پروردگار ان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
فائدہ : حضرات مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت ”إني عذت“ ایک ورد بھی ہے جو شخص دن میں سو مرتبہ اس کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی اسی طرح حفاظت کرے گا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فرعون سے حفاظت فرمائی۔ (تفسیر معالم العرفان : ص : ٢٩٧: ج : ١٦)
﴿وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ڰ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَه اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ﴾
وقال رجل مومن مرد مومن سے مراد
حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فرعون کی قوم سے تین شخصوں کے علاوہ اور کوئی ایمان نہیں لایا ایک یہ شخص اور ایک فرعون کی بیوی اور ایک وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع دی تھی کہ لوگ تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں۔ جس دن فرعون نے کہا کہ مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالوں تو اس شخص کو اللہ کے لیے غصہ آیا اور فرعون جیسے زبردست ظالم اور سرکش بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہا۔ (ابن کثیر: ص: ١٢٣، ج: ٧)
اس مومن آل فرعون کا نام بعض نے حبیب بتایا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس کا نام شمعان ہے سہیلی (رح) نے اس نام کو اصح قرار دیا ہے۔ (قرطبی: ص: ٢٦٨، ج: ١٥) اور بعض نے حزقیل وغیرہ بتایا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا۔ (قرطبی: ص: ٢٦٨، ج: ١٥، ابن کثیر: ص: ١٢٣، ج : ٧)
ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا صدیقین چند ہیں ایک حبیب نجاز جس کا واقعہ سورة یسٰین میں ہے دوسرا مومن آل فرعون۔ تیسرے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور وہ ان سب میں افضل ہیں۔ قرطبی کے حاشیہ پر موجود ہے۔ یہی حدیث ضعیف ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ (قرطبی: ص : ٢٩٨، طبع کوئٹہ)
یکتم إیمانه الخ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر لوگوں کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار نہ کرے دل سے اعتقاد پختہ رکھے تو وہ مومن ہے مگر نصوص صریحہ سے ثابت ہے کہ ایمان کے مقبول ہونے کے لیے صرف دل کا یقین کافی نہیں بلکہ زبان سے اقرار کرنا شرط ہے جب تک زبان سے اقرار نہ کرے گا مومن نہ ہوگا۔ البتہ زبان کا اقرار لوگوں کے سامنے اعلان کے ساتھ کرنا ضروری نہیں۔ اس کی ضرورت صرف اس وجہ سے ہے کہ جب تک لوگوں کو اس کے ایمان کا علم نہیں ہوگا وہ اس کے ساتھ معاملہ مسلمانوں جیسا نہ کرسکیں گے۔ (قرطبی : ص : ٢٧٠: ج : ١٥)
﴿وَيٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ﴾
ہمارے بعض مفسرین نے اس سے قیامت کا دن مراد لیا ہے۔ اور ہانک پکار کو انھوں نے مختلف آوازوں کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی مختلف اعلانات کرے گا۔ کبھی مختلف گروہوں کو الگ الگ ہونے کا حکم دے گا، کبھی لوگوں کی جزا و سزا کا اعلان کرے گا، کبھی کسی کی عزت افزائی کی جائے گی اور کبھی کسی کی رسوائی کا اعلان کیا جائے گا۔ لیکن بعض اہل علم سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے اس ہانک پکار کے دن سے یوم عذاب مراد لیتے ہیں۔ مقصود اس سے لوگوں کو یہ بتلانا ہے کہ آج جبکہ تم پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے اور کسی بات کو سننا تمہیں گوارا نہیں، لیکن تمہارے ان کرتوتوں کی پاداش میں جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا تو یہ تمہارا کروفر اور ٹھاٹ باٹ سب دھرا رہ جائے گا۔ تم میں سے ہر شخص اس عذاب کی ہول ناکی کو دیکھتے ہوئے پریشانی کے عالم میں مختلف آوازیں نکالے گا، جس طرح اچانک کوئی آفت آجائے تو لوگ سراسیمہ ہو کر دوڑ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے جاننے والوں سے بھی شور مچاتے ہوئے کہتے ہیں، دوڑو، بھاگو، اس کو پکڑو اس کو تھامو۔ ایسا ہی اس وقت بھی ہوگا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ عذاب ہی کی تعبیر معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم اس دن پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوگے۔ اور تم دیکھو گے کہ اس دن اس عذاب سے بچانے والا تمہیں کوئی نہیں ہوگا۔ کیونکہ کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے اس تباہی سے بڑی قوت درکار ہوتی ہے جو اس تباہی کا راستہ روک دے۔
﴿وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَاۗءَكُمْ بِه﴾
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں مبعوث فرمایا تھا تم نے اس پر بھی یقین نہ کیا۔ مصر کے لوگ اب جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیغمبر ہونے کے بھی منکر رہے ہیں اور ان کی وفات کے بعد اپنی عقل سے کہنے لگے کہ اب کوئی شخص اللہ تعالیٰ ایسا نہ بھیجے گا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرح اپنے آپ کو رسول کہے۔ اب رہی یہ بات کہ یوسف سے کون سے یوسف مراد ہیں اس میں اختلاف ہے بعض حضرات کہتے ہیں یہ یوسف بن یعقوب ہیں اور ” بالبینت “ سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا وعظ توحید ہے یعنی ” ءارباب متفرقون خیر أم اللہ الواحد القھار “۔ (خازن : ص : ٧٢: ج : ٤: طبع کوئٹہ)
اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ یوسف بن ابراہیم بن یوسف صدیق ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد نبی بنا کر بھیجا۔ (روح المعانی: ص: ٤٢٩، ج: ٢٤) انھوں نے بھی بیس سال تک دین کی مگر قوم نے تسلیم نہ کیا اور ان کی وفات کے بعد ان کو سمجھ آئی تو بڑا ملال آیا۔ (معالم العرفان: ص: ٣١٠، ج: ١٦)
﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ﴾
فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ وہ ایک اونچا مینار تعمیر کرائے تاکہ وہ اوپر چڑھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ سکے اس کے متعلق بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ فرعون نے یہ بات محض تمسخر کے طور پر کہی تھی وگرنہ ایسا کوئی مینار تعمیر ہی نہیں ہوا تھا اور نہ اسے اوپر جا کر خدا کو جھانکنے کا موقع ملا تاہم بعض مفسرین فرماتے ہیں مینار تو تعمیر کیا گیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ کردیا اور فرعون کو اسی پر چڑھنے کا موقع نہ ملا۔ (معالم العرفان: ص: ٣١٢، ٣١٣، ج: ١٦)
اس كے ليے فرعون نے مصر کے سب سے اونچے پہاڑ پر اس قدر اونچی عمارت کھڑی کی کہ خلق خدا میں سے کسی نے اتنی بلند عمارت نہ دیکھی تھی۔ ہزاروں معماروں، مزدوروں نے کئی برس میں اسے تعمیر کیا۔ فرعون اس پر چڑھا وہاں سے اس نے آسمان کی طرف تیر پھینکے جو خون آلود واپس گرے، فرعون نے کہا میں نے موسیٰ کے خدا کو قتل کردیا ہے (معاذ اللہ) تب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بحکم خداوندی اس عمارت کو اپنا پر مارا تو اس کے تین ٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا فرعونیوں پر گرا اور ہزاروں انسان مرگئے۔ ایک سمندر میں جاگرا اور ایک جانب مغرب گرگیا۔ (بغوی جلد 5 صفحۃ 174)
﴿فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾
مردِمومن کی تقریر کا اختتام
اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرد مومن کی تقریر کا آخری حصہ ہے جس میں اس نے خیرخواہی کی انتہا کردی ہے۔ جس طرح ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کو حق نصیحت ادا کردینے کے بعد جب بیٹے کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں پاتا بلکہ قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید اس نصیحت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں، تو وہ اپنے دل میں محبت اور شفقت کے تمام تر جذبات کو سمیٹتے ہوئے یہ بات کہتا ہے کہ بیٹا ! تمہیں شاید آج یہ میری باتیں سمجھ نہیں آرہیں لیکن وہ وقت دور نہیں جب تم میری باتوں کو یاد کیا کرو گے کہ میرے باپ نے ٹھیک کہا تھا۔ لیکن اس وقت شاید عمل کرنے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ یہاں بھی مرد مومن نے عمائدین سلطنت کے سامنے تمام تر خطرات کو سامنے دیکھتے ہوئے حقِ نصیحت ادا کرنے کی کوشش کی اور جب ان کی طرف سے کسی مثبت جواب کی امید نہ ہوئی تو تب اس نے یہ کہا کہ مجھے جو کہنا تھا، کہہ چکا، تم اسے قبول کرو یا نہ کرو۔ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔ لیکن اس وقت حسرت کے سوا تمہارے پاس کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں جس وقت کا ذکر کیا جارہا ہے اس سے مراد آخرت بھی ہوسکتی ہے کہ آخرت کے عذاب کو دیکھ کر تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔ اور یا اس سے مراد رسول کی تکذیب کی صورت میں جو عذاب آیا کرتا ہے وہ عذاب بھی ہوسکتا ہے کہ جب اس عذاب کی علامتیں ظاہر ہوں گی تو تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی، لیکن اس وقت بھی تمہاری ندامت نہ دنیا میں آنے والے عذاب کو روک سکے گی اور نہ آخرت کی سزا کو ٹال سکے گی۔
پھر مرد مومن نے خطرات کو بھانپتے ہوئے نہایت جرأت سے یہ بات کہی کہ میں جانتا ہوں کہ تم میرے اظہارحق کی کوشش کو برداشت نہیں کر پاؤ گے اور مجھے اس کی بڑی سے بڑی سزا دینے کی کوشش کرو گے، لیکن مجھے اس کی پروا نہیں، میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ہے، میں نے جو کچھ کہا سوچ سمجھ کر کہا اور اپنا فرض ادا کیا، اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے مجھے اس سے کوئی اندیشہ نہیں، میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے، وہ میری ان ادنیٰ کاوشوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور تمہارے کافرانہ رویئے کو بھی، مجھے اپنا فرض انجام دینا ہے اور تمہیں اپنا فرض ادا کرنا ہے، اب میرا معاملہ بھی اور تمہارا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ بعض اہل علم نے اس سے یہ بات بھی سمجھی ہے کہ تفویض صرف اپنے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے ہی کو نہیں کہتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کے حالات اور انجام کو بھی اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا کرنے کے بعد ان کی عاقبت اور انجام کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور اپنی طرف سے کوئی بڑی بات کہنے کی کوشش نہ کی جائے۔
﴿فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ﴾
مرد مومن کا قوم کی شرارتوں سے محفوظ ہوجانا اور قوم فرعون کا برباد ہونا
یہاں تک مرد مومن کا کلام تھا آگے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا اور آل فرعون کے مبتلائے عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا ارشاد فرمایا (فَوَقَه اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا) (سو اللہ نے اس کو ان لوگوں کے مکر اور تدبیر کی مصیبتوں سے محفوظ فرما دیا) (وَحَاق بآلِ فِرْعَوْنَ سَؤٓءُ الْعَذَابِ) (اور فرعون اور آل فرعون پر برا عذاب نازل ہوگیا) یہ لوگ دریا میں غرق ہوئے اور ڈوب مرے اگر (وَحَاق بآلِ فِرْعَوْنَ) سے اسی غرق کو مراد لیا جائے تو سیاق کلام سے بعید نہیں ہے گو صاحب روح المعانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب مرد مومن کو قتل کرنے کا فرعون نے منصوبہ بنایا (جس کا مومن ہونا بعد میں ظاہر ہوگیا تھا) تو وہ ایک پہاڑ کی طرف چلے گئے ان کے پیچھے فرعون نے ہزار آدمی بھیج دئیے ان آدمیوں نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے پایا اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی اور ان لوگوں کو درندے کھا گئے اور ان میں سے بعض پہاڑ میں پیاسے مرگئے اور بعض لوگ فرعون کے پاس واپس آگئے اس نے ان کو یہ کہہ کر قتل کردیا کہ تم قصداً اس شخص کو لے نہیں آئے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ۚ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
عذاب قبر کا ثبوت، کتاب وسنت کی روشنی میں
امام رازی (رح) تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: ” ہمارے علماء نے اس آیت سے عذاب قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ آگ ان پر یعنی فرعون اور اس کے آل و خاندان پر صبح وشام پیش کی جاتی ہے اور یہ ” عرض نار “ قیامت کے دن ہونا مراد نہیں لیا جاسکتا آگے اس بات کی صراحت ہے کہ:
وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ: اور نہ ہی اس سے دنیا میں عرض نارمراد لیا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا میں ان کے ساتھ ایسا ہونا ثابت نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ عرض نار موت کے بعد اور قیامت سے قبل ہوگا اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فرعون اور آل فرعون کے حق میں عذاب قبر ثابت ہے اور جب ان کے حق میں عذاب قبر کا برحق ہونا ثابت ہوگیا تو دوسروں کے حق میں بھی ثابت ہوگیا۔ کیونکہ ان میں اور دوسروں میں فرق کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں کہ ” علماء اہل السنۃ والجماعۃ کا اس پر اجماع ہے کہ کفار اور گناہ گار مسلمانوں کے حق میں عذاب قبر برحق اور کتاب اللہ وسنت متواترہ سے ثابت ہے اور سوائے بعض معتزلہ وغیرہ کے کوئی اس کا منکر نہیں۔ لیکن حوادثات زمانہ نے یہ دن دکھایا کہ ہمارے اس خطہ برصغیر میں بعض نئی روشنی کے دلدادہ لوگوں نے معتزلہ کا مذہب اپنا لیا ہے اور عذاب قبر کے انکار میں شد ومد سے مشغول ہوگئے ہیں لہٰذا اس مسئلہ میں تفصیل سے کچھ بات کہنے کی ضرورت پیش آگئی۔ چنانچہ یہ بندہ ضعیف حسب توفیق اس بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے (واللہ ولی التوفیق)
چنانچہ عرض ہے کہ: ” عذاب قبر کتاب اللہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ “ اثبات عذاب قبر کے دلائل قرآن مجید کی روشنی میں۔ جہاں تک کتاب اللہ اس کے ثبوت کا تعلق ہے تو متعدد آیات سے اسی پر دلالت ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں ان میں تین آیات ذکر کی ہیں جب کہ علامہ ابن القیم (رح) نے صحیح البخاری میں اثبات عذاب قبر پر استدلال فرمایا ہے۔
عذاب قبر سے متعلق پہلى آيت
یہ آیت وہ ہے جس سے امام بخاری (رح) نے صحیح البخاری میں اثبات عذاب قبر پر استدلال فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں : طبری نے عن طریق الثوری عن ابی قیس عن شرحبیل نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
”عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ أَرْوَاحُ آلِ فِرْعَوْنَ فِي طُيُورٍ سُودٍ تَغْدُو وَتَروح على النَّار فَذَلِك عرضهَا، وَوَصله بن أَبِي حَاتِمٍ مِنْ طَرِيقِ لَيْثٍ عَنْ أَبِي قَيْسٍ فَذَكَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِيهِ وَلَيْثٌ ضَعِيفٌ“ فتح الباري لابن حجر (3/ 233)
یعنی آل فرعون کی ارواح سیاہ پرندوں میں ہیں جو صبح شام آگ پر لائے جاتے ہیں اور یہی وہ عرض ہے (جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے) ابن ابی حاتم نے اس روایت کو موصولاً عن طریق لیث عن ابی قیس نقل کیا ہے اور اس میں عبداللہ بن مسعود (رض) کا ذکر کیا ہے۔ البتہ لیث ضعیف ہے۔
امام بخاری نے ”باب المیت یعرض علیه بالغداوۃ والعشي“ میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ [ص:100] بِالْغَدَاةِ وَالعَشِيِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَيُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ “. (صحيح البخاري: 1379، صحيح مسلم: 2866)
یعنی جب انسان مرجاتا ہے تو صبح شام اس کے سامنے اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت میں ہے تو جنت (اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے) اور اگر اہل جہنم میں سے ہے تو جہنم (میں اس کا جو ٹھکانا ہے وہ پیش کیا جاتا ہے) اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے دوبارہ زندہ کرے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی (رح) فتح الباری میں فرماتے ہیں : اس حدیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے اور یہ کہ جسم کے فناء سے روح فنا نہیں ہوتی کیونکہ عرض زندہ پر ہی ہوسکتا ہے (نہ کہ مردہ پر) نیز حافظ ابن حجر (رح) نے فتح البار ہی میں اس باب سے قبل فرمایا ہے کہ:
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ الْجُمْهُورُ عَلَى أَنَّ هَذَا الْعَرْضَ يَكُونُ فِي الْبَرْزَخِ وَهُوَ حُجَّةٌ فِي تَثْبِيتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَالَ غَيْرُهُ وَقَعَ ذِكْرُ عَذَابِ الدَّارَيْنِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ مُفَسَّرًا مُبَيَّنًا لَكِنَّهُ حُجَّةٌ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ مُطْلَقًا لَا عَلَى مَنْ خَصَّهُ بِالْكُفَّارِ وَاسْتَدَلَّ بِهَا عَلَى أَنَّ الْأَرْوَاحَ بَاقِيَةٌ بَعْدَ فِرَاقِ الْأَجْسَادِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ السُّنَّةِ كَمَا سَيَأْتِي. فتح الباري لابن حجر (3/ 233)
یعنی امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں: ” جمہور کے نزدیک یہ عرض نار برزخ میں ہوگا اور یہ عذاب قبر کے علی الاطلاق اثبات کی دلیل ہے۔ صرف کفار کے ساتھ مخصوص ہونے پر دلالت نہیں کرتی۔ نیز اس سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ جسموں سے جدا ہونے کے بعد بھی ارواح باقی رہتی ہیں۔ اہل السنۃ کا یہی قول ہے۔
روح المعانی میں ہے: آیت میں دو وقتوں کا ذکر تخصیص پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی فرعون اور آل فرعون کو صبح شام آپ پر پیش کیا جاتا ہے ایک ایک بار اور صبح شام سے مراد ہماری (اہل زمین) کی نسبت سے صبح شام ہیں (کیونکہ برزخ میں اہل برزخ کے لیے لیل و نہار کا تصور نہیں ہوگا اور نہ ہی صبح و شام کا تصور ہوگا ) چنانچہ ابن المنذر اور بیہقی کی شعب الایمان کی ایک روایت بھی اس کی تائید کرتی ہے جو حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ: انہ کان لہ صرختان فی کل یوم غدوۃً وعشیۃ کان یقول وجاء اللیل وعرض ال فرعون علی النار، فلا یسمع احد صوتہ الااستعاذ باللہ تعالیٰ من النار۔
اور ان دو اوقات کے درمیانی اوقات میں یا تو کسی اور نوع کا عذاب ہوتا ہوگا اس لیے عرض نار کا عذاب درمیانی اوقات میں نہ ہوتا ہوگا اور یا یہ کہ دونوں وقت کا ذکر کرنے سے پورا وقت اور جمیع وقت مراد ہو کیونکہ دونوں طرف کے ذکر سے کل وقت کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ بہرحال ! آیت سے اس امر پر دلالت بالکل واضح اور تام ہے کہ مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے اور برزخ میں عذاب ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے عرض نار کے بیان کرنے کے بعد آگے فرمایا : ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب “ اور اس سے ظاہر ہے کہ عرض نار اور عذاب روز قیامت میں مغایرت ہے تو متعین ہوگیا کہ عرض نار کا عذاب برزخ میں ہوگا اور پھر کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ عذاب برزخی میں آل فرعون اور دوسروں میں کوئی فرق ہے۔ لہٰذا عموم عذاب قبر پر استدلال مکمل اور تام ہوگیا۔ (روح المعانی : ص : ٤٤٧: جلد : ٢٤)
طبری نے محمد بن کعب القرظی (رح) سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں : ” آخرت میں نہ رات ہے نہ نصف النہار بلکہ وہاں بس صبح اور شام ہے قرآن میں اس کا ذکر آل فرعون کے تذکرہ میں ہے کہ ان کو صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اہل جنت کے متعلق قرآن فرماتا ہے : ” ولھم رزقھم فیھا بکرۃً وعشیاً (سورة مریم ٦٢)
اور ایک قول یہ ہے کہ اسی عرض نار سے مراد یہ ہے کہ آل فرعون کو صبح وشام جہنم میں جو ان کے منازل اور درجے ہیں وہاں پیش کیا جاتا ہے اور ابن جریر نے اس قول پر حضرت قتادہ (رح) کے قول سے استشہاد کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : یعرضون علیھا صباحاً ومساءً ۔ بہرکیف ! ان تمام اقوال کی روشنی میں یہ بات کہنا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون میں خبر دی ہے کہ ان کو صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے جس کی صورت وہی ہے جو ہم نے اوپر شرحبیل عن ابن مسعود (رض) کے حوالہ سے بتائی ہے کہ ان کی ارواح سیاہ پرندوں میں ہیں جنہین صبح وشام سے دو مرتبہ مراد نہ ہو بلکہ مطلق اور جمیع وقت مراد ہو جیسا کہ قتادہ (رح) کا قول ہے یعنی تائید عذاب مراد ہو۔
فقیہ ابو اللیث سمرقندی (رح) فرماتے ہیں کہ : ” میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ انسان عذاب قبر کا اقرار کرے لیکن اس کی کیفیت کے جاننے میں مشغول نہ ہو۔ “ روح البیان۔ حجۃ الاسلام امام غزالی (رح) نے احیاء العلوم میں بہت عمدہ بات کہی ہے : ” جس چیز کی میں تمہیں وصیت کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم (عذاب قبر کی) تفصیلات کے جاننے کی زیادہ فکر نہ کرنا نہ ہی اس کی کیفیت وغیرہ کی معرفت میں مشغول ہونا بلکہ اس عذاب کے دور کرنے کی فکر و کوشش میں مشغول رہنا جس طرح بھی ممکن ہو (عذاب کے دفع کرنے کی تدابیر) اعمال و عبادات میں غفلت کرتے رہے اور اس بارے میں بحث میں الجھے رہے تو تمہاری مثال اس شخص کی سی ہوگی جسے حاکم نے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا ہوتا کہ وہ اس کے ہاتھ ، ناک کان وغیرہ کاٹ ڈالے، اور وہ شخص رات اسی فکر میں غلطاں رہے کہ حاکم کس طرح ہاتھ وغیرہ کاٹے گا ؟ چھری سے یا تلوار سے یا استرے سے ؟ اور اپنے اوپر آئے ہوئے عذاب کو ٹالنے کی تدابیر ) اعمال و عبادات میں غفلت کرتے رہے اور اس بارے میں بحث میں الجھے رہے تو تمہاری مثال اس شخص کی سی ہوگی جسے حاکم نے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا ہوتا کہ وہ اس کے ہاتھ، ناک کان وغیرہ کاٹ ڈالے، اور وہ شخص رات اسی فکر میں غلطاں رہے کہ حاکم کس طرح ہاتھ وغیرہ کاٹے گا ؟ چھری سے یا تلوار سے یا استرے سے ؟ اور اپنے اوپر آئے ہوئے عذاب کو ٹالنے کی تدابیر سے غفلت میں رہے، اور یہ تو جہالت کا انتہائی مقام ہے۔ (احیاء العلوم غزالی (رح) : ج : ٤: ص : ٤٢٧)
امام تفسیر ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : یہ آیت اہل السنۃ والجماعۃ کی طرف سے قبر اور برزخ میں عذاب کے اثبات کے سلسلہ میں بنیادی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کے مکی ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور مسند احمد کی ایک روایت ہے جسے امام (رح) نے اپنی مسند سے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ : ایک یہودی عورت ان کی خدمت کیا کرتی تھی، حضرت عائشہ (رض) جب بھی اس کے ساتھ کوئی بھلائی کیا کرتیں تو وہ جواب میں یہ کہتی ” وقاک اللہ عذاب القبر “ (ترجمہ) اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ : کیا قیامت سے قبل قبر میں بھی عذاب ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ! کسی نے ایسا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ یہودی عورت ہے، جب میں اس کے ساتھ کوئی بھلائی کرتی ہوں تو یہ کہتی ہے : اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہودیہ نے جھوٹ کہا اور یہ اللہ کے معاملہ میں تو زیادہ جھوٹ کہتے ہیں۔ قیامت سے قبل کوئی عذاب نہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دن جتنے دن اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند آواز سے فرما رہے ہیں کہ:
“الْقَبْرُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ المظلمز أَيُّهَا النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا. أَيُّهَا النَّاسُ، اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ”. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ. تفسير ابن كثير ت سلامة (7/ 146)
” قبر تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہے۔ اے لوگو ! اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم رونا زیادہ کردیتے اور ہنسنا کم ۔ اے لوگو ! عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو، اس لیے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے (مکی دور میں ) عذاب قبر کے متعلق علم نہیں تھا جب کہ مذکور آیت یعرضون علیھا غدواً وعیشاً ۔ مکی ہے۔ ابن کثیر (رح) نے اس کے متعدد جوابات ذکر کئے ہیں لیکن مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں میرے نزدیک سب سے بہتر جواب یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے حق میں عذب برزخ کے اثبات پر دلالت کرتی ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مومن کو بھی اس کے گناہ کے سبب سے عذاب قبر ہو۔ اس جواب کی تائید مسند احمد ہی کی ایک اور روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ :
” ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس ایک یہودی عورت موجود تھی اور کہہ رہی تھی : کیا تمہیں اس بات کی خبر ہے کہ تم (مسلمان ) اپنی قبروں میں فتنہ میں مبتلا ہوگئے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر گھبرا گئے اور فرمایا : وہ تو یہودی قبر کے فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ چند راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : الا انکم تفتنون فی القبور (سنو ! تم (مسلمان) بھی فتنہ قبر میں مبتلا ہو گے) ۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ؛اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (ھکذارواہ مسلم عن الزھری (رح) بہ)
حافظ ابن حجر (رح) نے دونوں کو الگ الگ واقعات قرار دیا ہے۔ (کذا في فتح الباری)
شارح مسلم امام نووی (رح) نے طحاوی (رح) کی اتباع میں کہا ہے کہ: ” یہ دو قصے ہیں، پہلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیہ کے قول کا انکار فرمایا تھا۔ بعد ازان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم دیا گیا (کہ اہل ایمان بھی فتنہ قبر میں مبتلا ہوں گے) لیکن حضرت عائشہ (رض) کو اس کا علم نہیں تھا۔ وہ یہودی عورت پھر آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے انکار کی بناء پر یہودیہ کی بات کا پھر انکار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بتلایا کہ اثبات قبر کے بارے میں وحی نازل ہوچکی ہے۔ “ (فتح الباری : ج : ٣: ص : ١٨٣)
عذاب قبر سے متعلق دوسری آیت
دوسری آیت جس سے امام بخاری (رح) نے عذاب قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔ باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾ [الأنعام: 93]
ترجمہ: اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختیوں میں، اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں، آج تم بدلے میں ملے گا ذلت کا عذاب۔ حافظ ابن حجر (رح) سے فتح الباری میں وجہ استدلال ذکر کرتے ہوئے فرمایا : طبرانی اور ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ عن ابن عیاض (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ولو تری اذ الظلمون فی غمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم “ کے بارے میں فرمایا : ” یہ موت کے وقت ہوگا اور بسط سے مراد ضرب یعنی مارنا ہے۔ وہ ان کے چہروں اور پٹھوں پر ماریں گے۔ “
عذاب قبر سے متعلق تیسری آیت
﴿وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾ [الأنفال: 50]
ترجمہ : اور اگر تو دیکھے جس وقت جان قبض کرتے ہیں کافروں کی فرشتے مارتے ہیں ان کے منہ پر اور ان کے پیچھے۔
سورة الانفال کی یہ آیت بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع (رح) فرماتے ہیں کہ یہ تو عذاب قبر کے اثبات کی تیسری آیت ہے۔ اور یہ اگرچہ دفن سے قبل کا حال ہے لیکن یہ قیامت سے قبل واقع ہونے والے عذابوں میں سے ایک ہے اور اس کی نسبت قبروں کی طرف کی گئی۔ یعنی عذاب قبر کہا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر یہ عذاب قبر میں ہی ہوگا اور اکثر مردوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ قبروں میں دفن کئے جائیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کافر اور اس کے علاوہ جس نافرمان کو بھی قیامت سے قبل موت کے بعد عذاب دینا چاہیں تو خواہ وہ قبر میں دفن نہ کیا جائے تب بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن مخلوق سے وہ محجوب اور چھپا ہوا ہوتا ہے الایہ کہ جسے اللہ تعالیٰ اس سے فرمادیں۔ (ابن کثیر : ج : ٧: ص : ١٣٠)
عذاب قبر سے متعلق چوتھی آیت
چوتھی آیت: ﴿سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾ [التوبة: 101] ترجمہ : ان کو ہم عذاب دیں گے دوبارہ پھر وہ لوٹائے جائیں بڑے عذاب کی طرف۔ امام بخاری (رح) نے عذاب قبر پر اللہ رب العزت کے مذکورہ قول سے استدلال کیا ہے۔ حافظ ابن حجر (رح) فتح الباری میں فرماتے ہیں : طبرانی، ابن حاتم وغیرہ نے سدی عن ابی مالک عن ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کے روز خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ : اے فلاں باہر نکل جا کیونکہ منافق ہے۔
آگے طویل حدیث ذکر کی اور اس میں یہ فرمایا کہ پس اللہ تعالیٰ نے منافقین کو رسوا کردیا پس یہ پہلا عذاب (ان دو عذابوں میں سے جن کا ذکر آیت میں ہے) اور دوسرا عذاب، عذاب قبر ہے۔ حضرت قتادہ (رح) سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ نیز معمر عن الحسن (رح) نقل کیا ہے کہ حسن بصری (رح) نے فرمایا : سنعذبھم مرتین میں دو عذابوں سے مراد ایک دنیا کا عذاب ہے اور ایک عذاب قبر۔ محمد بن اسحاق نے فرمایا کہ : اغلب یہی ہے کہ مرتین میں سے ایک عذاب قبر ہے۔ جب کہ دوسرے میں احتمال ہے کہ وہ قحط سالی کا یا قید و قتل کا ہو یا ذلت و رسوائی وغیرہ کا۔ (فتح الباری : ج : ٣: ص : ١٨)
عذاب قبر سے متعلق پانچویں آیت
پانچویں آیت: ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ [إبراهيم: 27] ترجمہ : مضبوط کرتا ہے اللہ ایمان والوں کو مضبوط بات سے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔
امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح البخاری میں حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اذا اقعد المومن فی قبرہ اتی ثم شھد ان لا الہ وان محمداً رسول اللہ فذالک قولہ یثبت اللہ الذین امنوا ” نزلت فی عذاب القبر “۔
حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں فرمایا : علامہ کرمانی (رح) نے فرمایا ہے کہ آیت مذکورہ میں عذاب قبر کا تو نہیں لیکن شاید قبر میں بندہ کو جو حالات پیش آتے ہیں ان کو عذاب قبر سے تعبیر فرمایا ہے ایک تو اس لیے کہ قبروحشت و ہول ناکی کا مقام ہے۔ دوسرے یہ کہ فتنہ قبر تو اصلاً کافر کو پیش آئے گا لیکن تخویف اور ڈرانے کے پیش نظر مومن پر اس کا خوف ظاہر کیا ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتوں سے ملاقات ابن آدم کے لیے عادتاً ہیبت کا ذریعہ ہوتی ہے۔ (فتح الباری: ج: ٣، ص: ١٨)
حضرت مفتی محمد شفیع (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کی حدیث صحیح مرفوع کے ساتھ تفسیر بیان کی گئی ہے جو برزخ کی ہول ناکی اور عذاب قبر کو ثابت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے (آمین) لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آیت تو مکی ہے اور عذاب قبر کا علم اور مدینہ منورہ میں جا کر عذاب قبر کا جو علم ہوا ہے وہ تفصیل علم تھا مطلق علم نہیں (کیونکہ وہ پہلے ہی حاصل تھا) اور یہود یہ والی روایت سے اس پر انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں مطلق عذاب قبر کا انکار نہیں فرمایا تھا مومن کے حق میں بھی اس کے اثبات کا انکار فرمایا تھا۔ پھر جب تفصیل وحی نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمادیا کہ نافرمان اہل ایمان بھی عذاب قبر میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ روایات صحیحہ سے ماقبل ہوچکا ہے۔
عذاب قبر سے متعلق چھٹى آيت
﴿قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ﴾
ترجمہ : بولیں گے اے ہمارے رب ! تو موت دے چکا ہم کو دو بار اور زندگی دے چکا دو بار، اب ہم قائل ہوئے اپنے گناہوں کے ، پھر اب بھی ہے نکلنے کو کوئی راہ۔
اور یہ آیت ماقبل میں تفصیلاً گزر چکی ہے اور اس سے عذاب قبر کے استدلال کی صورت بھی وہاں بیان بیان کردی گئی ہے۔ امام رازی (رح) نے اس حوالہ سے تفصیلی بحث فرمائی ہے۔
عذاب قبر سے متعلق ساتويں آيت
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾ [طه: 124]
ترجمہ : اور جس نے منہ پھیرا میری یاد سے تو اس کو ملنی ہے گزران تنگی کی، اور لائیں گے ہم اس کو دن قیامت کے اندھا۔
اس آیت کی جو تفسیر حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابو سعید خدری (رض) سے منقول ہے۔ اس کی بناء پر یہ آیت کریمہ بھی عذاب قبر کو ثابت کرتی ہے۔
چنانچہ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : ” سفیان بن عینیہ (رح) نے ابو حازم (رح) عن ابن ابی سعید (رض) نقل کیا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : معیشۃً ضنکاً کے متعلق فرمایا : یضیق علیہ قبرہ حتی تختلف اضلاعہ فیہ یعنی اس کی قبر اس پر اس طرح تنگ کردی جائے گی کہ اس کی پسلیاں آپس میں مل جائیں گی (العیاذ باللہ) نیز ابن ابی حاتم نے ابو سعید (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے : فان لہ معیشۃً ضنکاً کے متعلق فرمایا کہ : قبر اس پر ملا دی جائے گی۔ البتہ دونوں مذکورہ روایتوں میں سے پہلی (موقوف) زیادہ صحیح ہے (سند کے اعتبار سے) ۔
علاوہ ازیں مسند بزار میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد آیت قرآنی : فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا کے متعلق منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عذاب قبر اسنادہ جید۔ (تفسیر ابن کثیر ملخصا: ج: ٧، ص: ٣٦)
عذاب قبر سے متعلق آٹھویں آیت
آٹھویں آیت : ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ (1) حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (3) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (4)﴾ [التكاثر: 1 – 4]
ترجمہ : غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے، یہاں تک کہ جا دیکھیں قبریں، کوئی نہیں آگے جان لوگے، پھر بھی کوئی نہیں آگے جان لوگے۔
اس سے بھی بہت سے علماء نے عذاب قبر پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ ابن جریر (رح) نے اس بارے میں متعدد روایت کی تخریج کی ہے۔ ان میں سے ایک حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” کنا نشک في عذاب القبر حتی نزلت ھذہ الآیة :{أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ (1) حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (3) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (4)، في عذاب القبر۔ (ابن جریر الطبری)
منکرین عذاب قبر کا شرعی حکم
جملہ اہل سنت والجماعت اس عقیدہ پر متفق ہیں کہ قبر اور برزک میں اہل ایمان اور اصحاب طاعت کو لذت و سرور نصیب ہوتی ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن وسنت اور اجماع امت کے صریح دلائل کے پیش نظریہ عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ حضرات فقہاء کرام کا ذمہ دار گروہ عذب قبر کے منکر کو کافر کہتا ہے حالانکہ وہ تکفیر کے معاملہ میں بڑے ہی محتاط ہیں۔ اور ان کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر کسی ایک کلمہ میں مثلاً سو معانی کا احتمال بھی پیدا ہوسکتا ہو جن میں ننانوے پہلو کفر کے نکلتے ہوں اور صرف ایک ہی پہلو اسلام کا پیدا ہوتا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ قائک کی مراد اسلام ہی کا پہلو ہو ہاں اگر وہ خود ہی کفر کا کوئی معنی اور پہلو متعین کر دے تو پھر کفر کے فتویٰ سے اس کو کوئی تاویل نہیں بچا سکتی۔ مسئلہ کی وضاحت کے لیے ہم مسلم حضرات فقہاء کرام میں صرف دو بزرگوں کی شہادت نقل کرتے ہیں۔
(١) :۔ علامہ طاہر بن احمد الحنفی المتوفی ٥٤٢ ھ لکھتے ہیں کہ : ولا یجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعة النبي عليه السلام، وینکر الکرام الکاتبین وعذاب القبر، کذا من ینکر الرؤیة لأنه کافر. (خلاصة الفتاویٰ : ص : ١٤٩: ج : ١)
جو شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت اور کرام کاتبین اور عذاب قبر اور رؤیۃ باری تعالیٰ کا منکر ہو اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے ۔
کیونکہ وہ کافر ہے۔ یہ عبارت اپنے مدلول پر بالکل واضح ہے مزید کسی تشریح کی حاجت نہیں۔
(٢) :۔ حافظ ابن الہمام الحنفی المتوفی ٨٦١ ھ فرماتے ہیں کہ:
” ولا تجوز الصلوٰۃ خلف منکر الشفاعة، والرؤیة، وعذاب القبر، والکرام الکاتبین لأنه کافر لتوارث ھذہ الأمور عن الشارع (صلی اللہ علیه وآله وسلم) “ (فتح القدیر باب الأمة: ص: ٣٦٠: ج :١: طبع بیروت)
ترجمہ: شفاعت اور اللہ تعالیٰ کے دیدار اور عذاب قبر اور کراما کاتبین کے انکار کرنے والے کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے کیونکہ وہ کافر ہے اس لیے کہ یہ امور شارع (علیہ السلام) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔
یہ حوالہ بھی اپنے مدلول میں صریح ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری: ص: ٣٠١، ج: ٢، طبع مصر) میں بھی ان کا عذاب قبر کو کفر لکھا ہے۔ ذخیرہ کتب حدیث میں صحیح اور صریح احادیث میں جن کا احصاء وشمار بھی مشکل ہے برائے وضاحت اور صراحت کے ساتھ قبر کی راحت اور عذاب کا ذکر ہے اور عذاب قبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی مذکور ہے۔ اگر بعض لوگ بدقسمتی سے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے محض اپنی عقل اور مادی طبیعت کے زور سے ان مسائل کا کوئی حل کرنے کی بےجا سعی کرتے ہیں اور اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر کے خوگر ہیں وہ دیگر کئی مسائل کی طرح عذاب قبر کا بھی انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کی ناقص سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مرنے کے بعد ثواب وعقاب اور راحت و عذاب بےجان جسم کو ہوا، لیکن نصوص قطعیہ اس باطل نظریہ کی پرزور تردید کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہوتا ہے اور قطع نظر احادیث کے قرآن کریم میں عذاب برزخ کا ذکر ہے۔ چنانچہ آیات مذکورہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ صبح و شام یعنی دوام واستمرار کے ساتھ فرعونیوں کو آگ کے عذاب پر پیش کیا جاتا ہے تو اس میں روح اور جسم دونوں ہوں گے۔ اور یہی عذاب قبر اور عذاب برزخ کہلاتا ہے کیونکہ قیامت کا عذاب تو ” ویوم تقوم الساعۃ “ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس میں بھی جسم اور روح دونوں ہوں گے۔ ” اشد العذاب “ ہوگا اور جو حکم فرعونیوں کا ہے یہی حکم جملہ کفار اور مشرکین کا ہے کیونکہ جو علت ان کے عذاب اور سزا کی ہے وہی دوسروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
حافظ ابن کثیر (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ قبر میں عذاب برزخ کے اثبات کے سلسلے میں اہل سنت کے لیے ایک بڑا قاعدہ اور ضابطہ ہے۔ (ابن کثیر: ص: ١٢٩، ج: ٧، طبع بیروت لبنان)
حضرت نوح (علیہ السلام) کی نافرمان اور مجرم قوم کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ﴿مما خطیئتھم اغرقوا فادخلوا ناراً فلم یجدوا لھم من دون اللہ انصاراً﴾ (سورة نوح : ٢٥) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی مجرم قوم غرقاب ہوتے ہیں فوراً عذاب میں مبتلا ہوگئی تو غرق جسم اور روح دونوں ہوئے نہ فقط روح اور نہ فقط جسم کیونکہ ﴿أغرقوا﴾ ماضی کا صیغہ ہے اور اسی طرح ﴿أدخلوا﴾ بھی ماضی کا صیغہ ہے جس میں حر ف فا ہے جو تعقیب بلا مہلت کے لیے آتا ہے۔ (الخیالی: ص: ١١٨)
اور اس غرقابی کے بعد فوراً جو عذاب ہوا ہے اسی کا نام عذاب قبر ہے اور عذاب برزخ ہے۔ اس میں جسم بھی شامل ہے اور روح بھی شامل ہے۔ ان آیات طبیات سے معلوم ہوا کہ اصل عذاب قبر کا ثبوت قرآن کریم میں جو مذکور ہے ہاں اس کی تفسیر و تشریح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر اپنی زبان مبارک سے بیان کردی جو بالکل حق ہے۔ (محصلہ تسکین الصدور : ص : ٨٢ تا ٨٦)
اب رہی دوسری بات جن روایات میں یہ آتا ہے کہ ارواح شہداء پرندوں کے پیٹوں میں جنت میں سیر کرتی ہیں یعنی یہ پرندے ان کی سواری ہوں گے اور کالے رنگ کے پرندے جن کو صبح شام جہنم کی آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ (روح المعانی : ص : ٤٤٧: ج : ٢٤)
جن کے اجواف میں آل فرعون کی ارواح ہیں۔ حافظ ابن قیم (رح) نے کتاب الروح میں مبسوط بحث کی ہے۔ وہ ثابت کرتے ہیں کہ نیک لوگوں کی روح ” علیین “ میں ہوتی ہے اور اس کا تعلق جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ علیین اور قبر کے ساتھ تعلق میں مربوط ہے اور جنت میں بھی چلتی پھرتی ہیں اور بد آدمی کی روح ” سجین “ میں ہے قبر میں بھی اس کا تعلق ہے اور یہ سارے تعلقات برحق ہیں ہمارے شعور سے بالاتر ہیں۔ اگر ہم عقل سے کام لیں گے تو معتزلہ بن جائیں گے ایمان سے کام لیں گے تو سب اپنی جگہ برحق ہیں کسی کا کسی سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ چنانچہ حافظ ابن قیم (رح) قبر کے عذب کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ہر وہ شخص جس کی وفات ہوگئی اور وہ عذاب کا مستحق ہے تو اس کی عذاب کا حصہ ضرور پہنچتا ہے اس کو قبر میں دفن کیا جائے پس اگر اس کو درندے کھا گئے یا وہ جلا کر راکھ کردیا گیا اور وہ راکھ ہوا میں اڑا دی گئی یا سولی پر لٹکا دیا گیا، دریا میں ڈوب گیا تو ان سب صورتوں میں اس کی روح اور اس کے بدن کو وہ عذاب پہنچے گا جو قبر میں دفن کئے ہوئے کو پہنچتا ہے۔ (کتاب الروح : ص : ٧١)
مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جس بدن کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اسی طرح درندے جس کو کھا جاتے ہیں یا راکھ وغیرہ کردیا جائے تو وہ صرف حسی اور مادی بدن ہی ہوتا ہے مثالی بدن ہرگز نہیں ہوتا۔ اس لیے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کو بھی باقاعدہ عذاب روح مع الجسم ہوتا ہے۔
﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾
ازالہ اشکال: اب اشکال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کریں گے حالانکہ بعض انبیاء کرام کو شہید کیا گیا ہے جسے پہلے گزر چکا ہے ” وقتل ھم الانبیاء ، ویقتلون النبیین “ اور پیغمبروں نے ہجرت بھی کی ہے تو پھر اس نصرت کا کیا معنی ؟ حافظ ابن جریر طبری (رح) نے اس کے دو جواب دئیے ہیں :
جواب : (١) یہ ہے کہ لفظ ” رسلنا “ اگرچہ جمع ہے مراد اس سے بعض ہے یعنی ہم اپنے بعض رسل کی اور ایمان والوں کی مدد کریں گے اور فرمایا کہ ” وذالک سائغ فی کلام العرب عرب کی کلام میں یہ درست ہے کہ جمع کا صیغہ بول کر اس سے بعض مراد لیا۔
جواب : (٢) یہ دیتے ہیں کہ ننصر بمعنی انتصار کے یعنی انتقام لینا۔ پیغمبر اگرچہ شہید بھی ہوئے مثلاً حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) مگر اللہ تعالیٰ نے انتقام لیا کہ بخت نصر ایرانی کو مسلط کیا اور ان کی قوم کا کچومر نکالا۔ (ابن کثیر : ص : ١٣٣: ج : ٧)
جواب : (٣) علامہ سلام الدین دہلوی (رح) کمالین میں دیتے ہیں کہ اس سے وہ ” رسل “ مراد ہیں جن کو جہاد کا حکم تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی جن کو جہاد کا حکم نہ تھا وہ شہید ہوئے جن مومنوں کا جہاد کا حکم نہ تھا وہ مومن بھی شہید ہوئے
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاسْتَـغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ﴾
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نسبت ذنب کا مفہوم
اس جگہ اگر سوال ہوا کہ ذنبک میں لفظ ذنب بمعنی گناہ کی اضافت (نسبت) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کیوں کی گئی ہے حالانکہ آپ تو معصوم ہی نہیں، امام المعصومین ہیں۔ تو پہلا جواب یہ ہے کہ بغوی، خازن، قرطبی و دیگر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد تعلیم امت ہے یعنی آپ سے کہا گیا کہ امت کو استغفار کا طریقہ بتائیں اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہوں سے استغفار کی دعائیں کرتے تھے۔ (اور مقصد تعلیم امت تھا)
چنانچہ سیدنا علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ایک طویل دعاء فرماتے، جس کے بعض الفاظ یہ ہیں: اللھم انت الملک لا الہ الا انت انت ربی و انا عبدک ظلمت نفسی و اعترفت بذ نبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا ولا یغفر الذنوب الا انت۔ اے اللہ ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا رب ہے، میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے میں اپنی خطاء کا اعتراف کرتا ہوں، میری خطائیں معاف کردے کیونکہ تیرے سوا کوئی خطاؤں کا معاف کرنے والا نہیں ہے۔ (مسلم کتاب صلوۃ المسافرین حدیث 201، ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب 118، ترمذی کتاب الدعوات باب 32)
ایسی مزید دعائیں کتب حدیث میں مروی ہیں حالانکہ حضور کے دامن میں ایک بھید نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے تو ایسی دعاؤں کا مقصد تعلیم امت کے سوا کچھ نہیں اور یہی واستغفر لذنبک کا مقصد ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ استغفار ایک عبادت ہے اور اللہ کو اپنے بندے کا استغفار کرنا پسند ہے خواہ وہ بندہ مغفور ہو اور اس سے مغفرت کا وعدہ ہو اور خواہ و ایسا بندہ ہو جو گناہ سے پاک ہے امام بغوی فرماتے ہیں: ھذا تعبدٌ من اللہ لیزیدہ به درجة ولیصیر سنة لمن بعدہ۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک حکم ہے تاکہ اس سے آپ کا درجہ بڑھایا جائے اور بعد والوں کے لیے سنت ہوجائے۔ (بغوی جلد 6 صفحۃ 97)
تیسرا جواب یہ ہے کہ استغفر لذنبک کا معنی استغفر لذنب امتک ہے یعنی اے رسول ! آپ اپنی امت کے گناہوں کے لئے استغفار کریں امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس کا معنی لذنب امتک ہے مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کی جگہ کھڑا کیا گیا ہے۔ (تفسیر قرطبی جلد 15 صفحہ 324) یہی معنی ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔
چوتھا جواب امام فخر الدین رازی نے یہ دیا ہے کہ لِذَنبک میں ذنب مصدر ہے جو اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے امام رازی فرماتے ہیں ای واستغفر لذنبک امتک فی حقک یعنی آپ کی امت کے حق میں جو گناہ کرتی ہے (یعنی آپ کی نافرمانی کرتی ہے) اس بارے میں آپ استغفار کریں۔ (تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 525 مطبوعہ ملتان)
پانچواں جواب یہ ہے کہ استغفر لذنبک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں بلکہ ہر سننے والے کو خطاب ہے یعنی اے ہر سننے والے انسان ! اپنے گناہوں کے لئے اللہ سے بخشش مانگو کیونکہ اس سے قبل فرمایا گیا فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ کہ صبر رکھو بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اب کیا نبی کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ؟ نہیں بلکہ اس میں ہر سننے والے کو خطاب ہے یونہی وَّاستغفر لذنبک میں بھی ہر سننے والے سے خطاب ہے۔
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ﴾
دعا کی حقیقت
امام رازی (رح) لکھتے ہیں ” حقیقة الدعاء استدعاء العبد ربه جل جلاله العنایۃ واستمدادہ إیاہ المعونة“۔ (تفسیر کبیر : ص : ٩٢١: ج : ٢) ترجمہ : دعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مدد اور رحمت و عنایت کا طلبگار رہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے مفہوم میں بہت وسعت ہے اپنے دینی و دنیوی مطالب ، زبان سے ، دل سے، یا حال سے پیش کرنا، تسبیح و تہلیل کرنا، یاد الٰہی میں لگے رہنا بھی دعا کے مفہوم میں داخل ہے، اصل عبادت یہ ہے کہ بندہ کی ہر ادا سے یہ ظاہر ہوتا رہے کہ یہ بندہ ہے اور وہ رب ہے، یہ مخلوق ہے اور وہ خالق ہے، یہ محتاج ہے وہ غنی ہے، یہ عاجز ہے وہ قادر ہے جو اس امر سے گریز کرتا ہے وہ دعا کو موثر نہیں سمجھتا اور نہ وہ اپنے آپ کو ” عبد “ اور رب الا رباب کو رب مانتا ہے اس کی سزا دوزخ ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا دعا کو قبول کرنا یا نہ کرنا اس کے اختیار میں ہے اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ مظلوم کی بدعا بھی قبول ہوتی ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ۔ احادیث میں انفرادی اور اجتماعی دعاؤں کے الفاظ منقول ہیں جہاں فرد واحد کی اپنی اصلاح وفلاح ہے وہاں واحد متکلم کے صیغے منقول ہیں ، اور جہاں پورے معاشرے کو شریک کیا گیا ہے وہاں جمع متکلم کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں۔
حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی نے دعا کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ (١) فرض : مثلاً نبی کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے دعا کریں پس اسے یہ دعا کرنا فرض ہے۔ (٢) واجب : جیسے دعا قنوت۔ (٣) سنت : جیسے تشہد اور ادعیہ ماثورہ۔ (٤) دعا عبادت : جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصودے کیونکہ دعا میں تذلیل عجز و انکساری کا اظہار ہے اور تذلل اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہے۔
فرضوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا ثبوت
فرائض کے بعد جو ذکر واذکار کئے جاتے ہیں ان کے بجالانے کے بعد نمازیوں کو اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا چاہیے پھر دعا کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے چہروں پر مل لینا چاہیے۔
نور الایضاح میں فرضوں کے بعد دعا کرنے کا یہ طریقہ تحریر ہے۔ ” ثم یدعون لانفسھم وللمسلمین رافعی ایدیھم ثم یمسحون بھا وجوھھم فی آخرہ “۔ (نور الایضاح از حسن بن علی الشر نبلانی : ص : ٨١: تحت فصل فی الاذکار الواردۃ بعد الفرض طبع اسلام آباد مراقی الفلاح شرح نور الایضاح للشیخ حسن بن عمار : ص : ٧٣: طبع ملتان حاشیہ الطحطاوی علیٰ الفلاح للشیخ احمد لطحطاوی : ١٧٣: طبع مصر)
تعامل امت اس پر مستزاد ہے کیونکہ فرمان نبوت ہے ” لا تجتمع امتی علی الضلالۃ “ لہٰذا اس کی صحت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے یہ طریقہ دعا صحیح اور مستحسن ہے بدعت نہیں۔
فرضوں کے بعد سر پر ہاتھ کر دعا پڑھنے کا ثبوت
حدیث کی کتاب حصن حصین: ص: ٨٢ میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوئے تو دائیں ہاتھ کو سر پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے ” بسم اللہ الذی لا إله إلا ھو الرحمن الرحیم اللھم اذھب عني الھم والحزن “۔ (بحوالہ خیر الفتاویٰ: ص: ٣٠٠، ج: ١)
میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا ثبوت
میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ”رفع یدیه ثم قال اللھم اغفر لعبید أبي عامر (رض)“۔ (صحيح بخاری: 6383، صحيح مسلم: 2498)
حضرت عبید ابوعامر (رض) کے لیے ان کی وفات کی خبر سن کر ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا مانگی تھی۔ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب (رح) (المتوفی ١٢٦٢ ھ) فرماتے ہیں کہ تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ظاہراً جائز ہے الخ (مسائل اربعین: ص: ٣٤) اور قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔ (دیکھئے صحيح مسلم: ص: ٣١٣، ج: ١، اصابہ فی تمييز الصحابہ: ص: ٢١٨، ج: ٢)
علامہ نووی (رح) لکھتے ہیں : دعا کا طویل مانگنا اور ہاتھ اٹھا کر مانگنا مستحب ہے۔ اور قبرستان میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو کر دعا کرنا اکمل ہے۔ (مسلم حاشیہ : ص : ٣١٣: ج : ١) البتہ رخ قبلہ کی طرف ہوجا نا چاہیے۔ واللہ اعلم۔
﴿فَلَمَّا جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِه يَسْتَهْزِءُوْنَ﴾
نحوی بحث: دو آسان ترکیبیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ”فرحوا“ کی ضمیر راجع بسوئے کفار، اور ”عندھم“ کی ضمیر بسوئے ”رسل“ مطلب یہ ہے کہ کافر خوش ہوئے اس چیز پر جو پیغمبروں کے پاس علم تھا۔ یہ خوش ہونا بطور استہزاء اور انکار کے تھا۔
دوسری ترکیب یہ ہے کہ ”فرحوا“ کی ضمیر راجع بسوئے ”رسل“ اور ”هم“ ضمیر راجع بسوئے کفار تو مطلب یہ ہے کہ جب ان کے پاس رسل واضح دلائل لے کر آئے تو کفار خوش ہوئے اس چیز پر جو کفار کے پاس علم تھا۔ اب اس پر اعتراض ہوگا کہ کفار کے پاس جو علم تھا کیا شرعاً اس پر علم کا اطلاق ہوتا ہے ؟ تو امام رازی (رح) فرماتے ہیں اس پر علم کا اطلاق ہوتا ہے چنانچہ سورة روم میں ہے ” یعلمون ظاھراً من الحیوۃ الدنیا، ج وھم عن الاخرۃ ھم غفلون “۔ (روم آیت : ٧) کہ ہو جانتے تھے دنیا کی زندگی کے ظاہر کو اور آخرت سے وہ غافل ہیں تو کہتے ہیں کہ یہاں علم کا لفظ بولا گیا ہے تو اب مطلب یہ ہوگا کہ وہ کافر خوش ہوئے اس پر جواب کے پاس دنیا کا علم تھا۔ (تفسیر کبیر : ص : ٥٣٥: ج : ٢٧: طبع بیروت لبنان)
حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس علم معاش یعنی دنیا کی زندگی گذارنے کا علم تو تھا مگر ان کے پاس علم معاد نہیں تھا ۔ جس کو بروئے کار لا کر وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوسکتے تھے بلکہ آخرت کی دائمی زندگی کو بھی بہتر بنا سکتے تھے ان کے پاس دنیا کا علم نہیں تھا جس کے ذریعے وہ عقیدہ اعمال اور اخلاق کو درست کرسکتے۔ محض معاش کا علم تو آج بھی دنیا میں بہت زیادہ ہے آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے علم طب و جراحت اپنے عروج پر ہے، صنعت و حرفت کی بدولت نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں، مگر وہ علم نہیں ہے جو اللہ کے نبیوں پر بذریعہ وحی نازل ہو۔ موجودہ زمانے میں امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی وغیرہ اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ سمجھتے ہیں مگر ان کا سارا علم و ہنر معیشت کے گرد گھومتا ہے اور وہ اسی کو علم کل سمجھتے ہیں اور اصل علم کی طرف نہیں آتے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک فلسفی کو مشورہ اور جواب مشورہ
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں کسی نے ایک بہت بڑے فلسفی سے کہا کہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے ا کتساب فیض کریں اور ان کی دعوت کو قبول کریں، تو وہ شخص کہنے لگا کہ ہم تو خود عالم فاضل اور مہذب آدمی ہیں، ہمیں موسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع کی کوئی ضرورت نہیں نبیوں کی تعلم و تربیت جاہل لوگوں کے لیے ہوا کرتی ہے ، وہ ان کی راہنمائی کرتے ہیں ہمیں تو ضرورت نہیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا واقعہ
مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ کس نے افلاطون یا کسی دوسرے فلاسفر سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق دریافت کیا تو اس فلسفی نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا امتحان لینا چاہاکہتے ہیں کہ اس نے آپ سے سوال کیا کہ اگر زمین و آسمان ایک کمان کی شکل اختیار کرلیں اور دنیا میں ظاہر ہونے والے تمام حوادثات کو تیر تصور کرلیا جائے اور اس تیر کمان کو چلانے والا خود خدا ہو تو پھر اس تیر کمان کے حملے سے بچاؤ کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بچاؤ کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بچاؤ کی ایک صورت ہے کہ دوڑ کر خدا تعالیٰ کے دامن میں پناہ حاصل کرلی جائے۔ قرآن کریم میں موجود ہے ” ففروا الی اللہ “ اللہ کی طرف دوڑ کر جاؤ تو ہر شر سے پناہ حاصل ہوجائے گی۔ تو اس شخص نے یہ جواب سن کر اقرار کیا کہ ایسے مشکل سوال کا جواب نبی کے بغیر کوئی نہیں دے سکتا ۔ یہ واقعی اللہ کے نبی ہیں مگر ہمیں ان کی ضرورت نہیں ، ہم خود مہذب لوگ ہیں۔ (تفسیر معالم العرفان : ص : ٣٧٢، ٣٧٣: ج : ١٦)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.