ترجمہ اور تفسير سورہ زخرف
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
حم ﴿1﴾
حم
وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿2﴾
قسم ہے اس واضح کتاب کی۔
إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿3﴾
ہم نے اس کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے تاکہ تم سمجھو
وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿4﴾
اور یقینا وہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بلند رتبہ اور حکمت سے بھر پور کتاب ہے۔
أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ ﴿5﴾
کیا ہم تم سے (اس) نصیحت نامہ کو اس لیے ہٹالیں گے کہ تم حد سے گزر جانے والے ہو۔
وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِنْ نَبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ ﴿6﴾
ہم پہلے لوگوں میں بہت سے پیغمبر بھیج چکے ہیں
وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿7﴾
اور ان کے پاس کوئی ایسا پیغمبر نہیں آیا جس کا انھوں نے مذاق نہ اڑایا ہو۔
فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ ﴿8﴾
پھر ہم نے ان لوگوں کو جو ان ( اہل مکہ) سے زیادہ طاقتور تھے ان کو تباہ و برباد کر ڈالا اور ان سے پہلے لوگوں کی یہ حالت گزر چکی ہے۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ ﴿9﴾
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یہ یقیناً کہیں گے کہ انھیں پیدا کیا ہے (اسی خدائے) ہمہ تواں نے ہمہ داں نے۔
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿10﴾
وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش (راحت و آرام کا ذریعہ) بنایا ۔ اسی نے ان میں تمہارے ( آنے جانے کے) راستے بنائے تاکہ تم اپنی منزل تک پہنچ سکو ۔
وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ ﴿11﴾
اور جس نے آسمان سے پانی ایک خاص انداز سے برسایا، پھر ہم نے اس سے خشک زمین کو زندہ کیا اسی طرح تم بھی (اپنی قبروں سے) نکالے جاؤ گے،
وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ ﴿12﴾
اور جس نے تمام اقسام بنائیں اور تمہارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔
لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿13﴾
تاکہ تم ان کی پشت پر خوب جم کر بیٹھو۔ پھر جب اطمینان سے ان پر بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کا احسان یاد کرو اور تم یہ کہو ” اس کی ذات پاک بےعیب ہے جس نے ان چیزوں کو ہمارے تابع کردیا ورنہ ہم تو ایسے طاقت ورنہ تھے کہ ان کو اپنے قابو میں کرلیتے
وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ﴿14﴾
اور بیشک ہم سب کو اپنے پرور دگامر کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ ﴿15﴾
اور انھوں نے اس کے بندوں میں سے اس کا جزو ( یعنی اولاد) بنا رکھا ہے۔ بیشک انسان کھلا ہوا نا شکرا ہے۔
أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِينَ ﴿16﴾
کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے ( اپنے لئے) بیٹیاں بنائیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ہے۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿17﴾
جس چیز کی مثال یہ رحمن کے لیے دے رہے ہیں (ان کا یہ حال ہے کہ) جب اس کو ( بیٹی) ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور دل ہی دل میں ( غم و غصے سے) گھٹتا رہتا ہے۔
أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ ﴿18﴾
تو کیا جو زیورات میں پرورش پائے اور مباحثہ میں بھی ژولیدہ بیان ہو (وہ اللہ کی اولاد بننے کے قابل ہے؟)۔
وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ ﴿19﴾
اسی طرح انھوں نے فرشتوں کو جو اللہ کے خاص بندے ہیں ان کو بیٹیاں قرار دے رکھا ہے۔ (اللہ تعالیٰ نے پوچھا ہے کہ) کیا یہ فرشتوں کی پیدائش کے وقت موجود تھے ؟ فرمایا کہ ان کی یہ بات لکھ لی گئی ہے اور اس کے متعلق ان سے سوال ضرور کیا جائے گا۔
وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ ۗ مَا لَهُمْ بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴿20﴾
اور یہ کہتے ہیں کہ اگر (خدائے) رحمن کو (یہی) منظور ہوتا تو ہم فرشتوں کی پرستش (ہی) نہ کرتے انھیں اس بارے میں کچھ بھی تحقیق نہیں، محض اٹکل سے کام لے رہے ہیں۔
أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ ﴿21﴾
ہم نے کیا اس (قرآن) سے قبل انھیں کوئی کتاب دے رکھی ہے جس سے یہ سند پکڑ رہے ہیں؟۔
بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ ﴿22﴾
بلکہ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے اور ہم انھیں کے نشانات قدم پر چل رہے ہیں۔
وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ ﴿23﴾
(فرمایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ) اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی بستی میں کوئی پیغمبر بھیجا تو وہاں کے عیش پسندوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا تھا لہٰذا ہم بھی ان ہی کے نشانات قدم پر چل رہے ہیں۔
قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ ۖ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ﴿24﴾
پیغمبر نے کہا کہ جس طریقے پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اگر میں اس سے بہتر طریقہ لے کر آیا ہوں کیا تم پھر بھی ان ہی کے راستے پر چلو گے۔ ( ان کا جواب یہ تھا کہ) تم جس ( دین) کے ساتھ بھیجے گئے ہو اس کا ہم انکار کرتے ہیں ۔
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴿25﴾
پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا ۔ پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ ﴿26﴾
اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں، جن کو تم پرستش کرتے ہو۔
إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ﴿27﴾
میں صرف اسی کو پوجتا ہوں جس نے مجھ کو پیدا کیا۔ پس بیشک وہی میری رہنمائی فرمائے گا
وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿28﴾
اور اسی (توحید) کو ابراہیم اپنی اولاد میں ایک باقی رہنے والا کلمہ بنا گیا تاکہ لوگ شرک سے باز رہیں
بَلْ مَتَّعْتُ هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُبِينٌ ﴿29﴾
بلکہ میں نے ان کو اور ان کے آباء کو ہر قسم کے سامان سے بہرہ مند رکھا حتی کہ ان کے پاس حق (قرآن مجید) اور صاف صاف بیان کرنے والا رسول آگیا
وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ ﴿30﴾
اور جب ان کے پاس یہ سچا قرآن پہنچا تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔
وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴿31﴾
اور کہنے لگے کہ یہ قرآن (اگر کلام الہیٰ سے تو) ان دونوں بستیوں (مکہ اور طائف کے رہنے والوں) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔
أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ ﴿32﴾
کیا آپ کے پروردگار کی رحمت یعنی نبوت کو یہ لوگ تقسیم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ دنیوی زندگی میں بھی ان کی روزی ان میں ہم ہی نے تقسیم کررکھی ہے اور ہم نے باعتبار مراتب ایک کو دوسرے پر بلندی عطا کررکھی ہے تاکہ ایک دوسرے کو خدمت کے لیے استعمال کرسکے اور آپ کے رب کی رحمت تو اس سے بدرجہا بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کرتے پھرتے ہیں۔
وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ ﴿33﴾
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو جو لوگ خدائے رحمان کے منکر ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کردیتے اور زینے بھی چاندی کے جن پر وہ چڑھتے
وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ ﴿34﴾
اور ان کے گھروں کے کواڑ اور ان کے تخت بھی چاندی کے جن پر وہ ٹیک لگا کر بیٹھتے
وَزُخْرُفًا ۚ وَإِنْ كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿35﴾
اور یہ چیزیں سونے کی بھی کردیتے اور یہ چیزیں تو بس دنیا کی زندگی کی متاع ہیں اور آخرت تیرے رب کے پاس متقیوں کے لیے ہے
وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ﴿36﴾
اور جو خدا کے ذکر سے اعراض کرلیتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے
وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ ﴿37﴾
اور وہ ان کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں۔
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ﴿38﴾
یہاں تک کہ جب یہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق کے دونوں کناروں کی دوری ہوتی اپس کیا ہی برا ساتھی ہوگا!
وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴿39﴾
اور جب کہ تم نے اپنے اوپر ظلم ڈھائے تو یہ چیز آج تم کو ذرا بھی نافع نہیں ہوگی کہ تم عذاب ہیں ایک دوسرے کے شریک ہو۔
أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴿40﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں یا آپ اندھوں کو اور جو کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ان کو راہ ہدایت دکھا سکتے ہیں؟
فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ ﴿41﴾
پھر اگر ہم آپ کو اٹھالیں تو بھی ہم ان (کافروں) سے بدلہ لے کر رہنے والے ہیں،
أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ ﴿42﴾
یا ان کافروں سے ہم نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ آپ کو (اسی دنیا کی زندگی ہی میں) دکھلا دیں ۔ اس پر ہم پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ﴿43﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس پر جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اس کو مضبوطی سے تھام لیجئے۔ بیشک آپ صراط مستقیم پر ہیں۔
وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ ﴿44﴾
اور یہ ( قرآن مجید) آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے ایک یاددہانی ہے اور بہت جلد تم سب سے پوچھا جائے گا
وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴿45﴾
اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے ان سے پوچھ لیجئے (یعنی ان کی کتابوں میں دیکھ لیجئے) کہ کیا ہم نے رحمن کے سوا دوسرے معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی عبادت و بندگی کی جائے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿46﴾
اور ہم نے موسیٰ کو اپنے نشانات کے ساتھ فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تھا تو انھوں نے فرمایا کہ میں پروردگار عالم کی طرف سے پیغمبر ہوں،
فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِآيَاتِنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَضْحَكُونَ ﴿47﴾
پھر جب وہ ( موسیٰ (علیہ السلام) ہماری نشانیوں ( معجزات) کو ان کے پاس لے کر آیا تو وہ ان کی ہنسی مذاق میں اڑانے لگے۔
وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا ۖ وَأَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿48﴾
اور ہم ان کو ایک سے ایک بڑھ کر نشانیاں دکھاتے رہے اور ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا تاکہ وہ رجوع کریں۔
وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ﴿49﴾
اور وہ بولے کہ اے جادو گر اپنے پروردگار سے ہمارے حق میں اس چیز کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے (اب) ہم ضرورراہ پر آجائیں گے۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ ﴿50﴾
پھر جب ہم نے ان سے عذاب ہٹادیا، جبھی انھوں نے عہد بھی توڑ دیا۔
وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿51﴾
اور فرعون نے اپنی قوم کو پکارا اور کہا کہ اے میری قوم ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور میرے نیچے جو نہریں بہہ رہی ہیں کیا تمہیں نظر نہیں آرہی ہیں؟
أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ ﴿52﴾
کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں ہوں جس کی کوئی عزت بھی نہیں ہے جو صاف طور پر بول بھی نہیں سکتا۔
فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ ﴿53﴾
پھر اگر یہ ( اللہ کا ) بھیجا ہوا ہے تو اس پر سونے کے کنگن یا اس کے ساتھ فرشتے جمع ہو کر کیوں نازل نہیں کئے گئے؟
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿54﴾
پھر فرعون نے اپنی قوم کو کمزور کردیا (ان کی عقل کھول دی) انھوں نے اس ( فرعون ہی) کی بات کو مانا ۔ بیشک وہ تھے ہی نافرمان لوگ۔
فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿55﴾
پھر جب انھوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور پھر ہم نے ان سب کو ڈبو دیا
فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ ﴿56﴾
اور ان کو ماضی کی ایک داستان اور دوسروں کے لیے ایک نمونہ عبرت بنا دیا۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ ﴿57﴾
اور جب ابن مریم کی مثال دی جاتی ہے تو تمہاری قوم کے لوگ اس پر چیخنے لگتے ہیں
وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴿58﴾
اور بول اٹھے کہ اچھا تو افضل ہمارے دیوتا ہوئے یا وہ؟ (حقیقت یہ ہے کہ) انھوں نے یہ آپ کے سامنے محض کٹ حجتی کے طور پر پیش کیا ہے۔
إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿59﴾
حالانکہ وہ ( عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم) صرف اللہ کے ایک بندے ہیں جن پر ہم نے فضل و کرم کیا تھا اور بنی اسرائیل کے لیے ان کو ( اپنی قدرت کا ایک) نمونہ بنایا تھا
وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ ﴿60﴾
اور اگر ہم چاہتے تو فرشتوں کو پیدا کردیتے جو زمین پر تمہاری جگہ ( تمہارے جانشین بن کر) رہتے
وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ ﴿61﴾
اور بیشک وہ (عیسیٰ ابن مریم) قیامت کی ایک علامت ہیں۔ تم ( اس قیامت کے قائم ہونے) میں شک نہ کرو ۔ تم میری بات مانو یہی صراط مستقیم ہے
وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴿62﴾
اور کہیں شیطان تمہیں (راہ مستقیم سے) نہ روک دے کیونکہ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿63﴾
اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کھلی ہوئی نشانیاں (معجزات) لے کر آگئے اور انھوں نے کہا کہ میں تمہاری پاس عقل و سمجھ کی باتیں لے کر آیا ہوں تاکہ بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو ان کی حقیقت سے تمہیں آگاہ کر دوں۔ تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ ﴿64﴾
بیشک اللہ ہی میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے اسی کی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ ﴿65﴾
پھر (بنی اسرائیل کے) بہت سے گروہوں نے آپس میں شدید اختلاف کر ڈالا تو ایسے ظالموں کے لیے درد ناک دن کا عذاب اور بڑی تباہی (ہونے والی) ہے۔
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿66﴾
یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آدھمکے اور انھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ﴿67﴾
حالانکہ اس دن سوائے اہل تقویٰ کے تمام دوست آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔
يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿68﴾
(اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ) اے میرے بندو ! آج تم پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ رنجیدہ ہو گے۔
الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ ﴿69﴾
وہ لوگ جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور (ہماری) فرمان برداری کرتے رہے تھے
ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿70﴾
تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہوجاؤ تمہیں خوش رکھا جائے گا
يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿71﴾
ان کے روبرو سونے کی رکابیاں اور جام گردش کریں گے اور وہاں ہر چیز موجود ہوگی جس کی دل خواہش کریں اور جسے دیکھ کر آنکھیں لذت اندوز ہوں اور تم اس جنت میں ہمیشہ رہو گے
وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿72﴾
اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی وجہ سے وارث ہوئے ہو
لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿73﴾
یہاں تمہارے لیے بہ کثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے
إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ﴿74﴾
بیشک نافرمان لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے،
لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴿75﴾
ان سے کسی وقت بھی عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے۔
وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ ﴿76﴾
اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی (اپنے حق میں) ظالم رہے ہیں۔
وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ ﴿77﴾
اور وہ (داروغہ جہنم) کو آواز دے کر کہیں گے کہ اے مالک! (کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اس عذاب سے نجات کے لئے) تیرا رب ہمارا کام تمام کردے۔ (یعنی موت دیدے) تو وہ کہے گا کہ تم ہمیشہ اسی حال میں رہو گے۔
لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ﴿78﴾
بالیقین ہم نے سچا دین تم تک پہنچا دیا لیکن تم سے زیادہ تر سچے دین سے بیزاری ہی رکھتے ہیں۔
أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ ﴿79﴾
کیا انھوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو ہم بھی ایک قطعی فصلہ کرلیں گے۔
أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ﴿80﴾
کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کے رازوں اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سن رہے ہیں ؟ ہاں، ہم سن رہے ہیں اور ہمارے فرستادے ان کے پاس لکھ رہے ہیں
قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ ﴿81﴾
کہہ دو کہ اگر خدائے رحمان کے کوئی اولاد ہو تو سب سے پہلا اس کی عبادت کرنے والا میں ہوں گا۔
سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿82﴾
حالانکہ یہ مشرک اللہ کی شان میں جو باتیں بنا رہے ہیں ان سے آسمان اور زمین کا مالک جو عرش کا بھی مالک ہے بالکل پاک اور بےعیب ہے۔
فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ ﴿83﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو ان کے بےہودہ مشغلوں اور کھیل کود میں لگا رہنے دیجئے یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ پیش آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ ﴿84﴾
اور وہ وہی ذات ہے جو آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے اور وہی حکیم کل ہے، علیم کل ہے۔
وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿85﴾
اور بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس کے اختیار میں آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کی بادشاہی ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿86﴾
اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انھیں تو سفارش (تک) کا اختیار نہیں، ہاں جن لوگوں نے حق کا اقرار کیا اور تصدیق بھی کرتے رہے (وہ البتہ سفارش کرسکیں گے)
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿87﴾
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے تو پھر کہاں بھٹک جاتے ہیں!
وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿88﴾
(فرمایا کہ) اللہ کو رسول کے یہ کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں کہ (سمجھانے کے باوجود) ایمان نہیں لاتے۔
فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿89﴾
(تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی پروا نہ کیجئے اور یہ کہہ دیجئے کہ تم سلامت رہو۔ پھر وہ بہت جلد سب کچھ سمجھ جائیں گے۔
سورة الزخرف كا تعارف
اس سورت کا بنيادى موضوع مشرکین مکہ کی تردید ہے جس میں ان کے اس عقیدے کا خاص طور پر ذکر كيا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، نیز وہ اپنے دین کو صحیح قرار دینے کے لیے یہ دلیل دیتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ دادؤں کو اسی طریقے پر پایا ہے، اس کے جواب میں اول تو یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قطعی عقائد کے معاملے میں باپ دادؤں کی تقلید بالکل غلط طرز عمل ہے، اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر فرمایا گیا ہے کہ اگر باپ دادؤں ہی کے پیچھے چلنا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کیوں نہیں کرتے، جنہوں نے شرک سے کھلم کھلا بیزاری کا اعلان فرمایا تھا، مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو اعتراضات کیا کرتے تھے اس سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے، ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو کسی دولت مند سردار کو اس مقصد کے لیے کیوں نامزد نہیں کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ واضح فرمایا ہے کہ دنیوی مال و دولت کا انسان کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی سونا چاندی اور دنیا بھر کی دولت دے سکتا ہے ؛ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں، کیونکہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اس مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس سورت نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ معاشی وسائل کی تقسیم اپنی حکمت کے مطابق ایک خاص انداز سے فرماتے ہیں، جس کے لیے ایک مستحکم نظام بنایا گیا ہے، اسی ذیل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے ؛ کیونکہ فرعون کو بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یہی اعتراض تھا کہ وہ دنیوی مال و دولت کے اعتبار سے کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے، اور فرعون کے پاس سب کچھ ہے ؛ لیکن انجام یہ ہوا کہ فرعون اپنے کفر کی وجہ سے غرق ہوا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غالب آکر رہے، نیز اس سورت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی مختصر ذکر فرما کر ان کی صحیح حیثیت واضح فرمائی گئی ہے۔
“زخرف” عربی زبان میں سونے کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر : ٣٥ میں اس کا ذکر اس سیاق میں کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سارے کافروں کو سونے ہی سونے سے نہال کردے، اسی وجہ سے اس سورت کا نام زخرف ہے۔
حٰـمۗ، وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ
”حم ٓ والکتب المبین“ کے مفسرین نے حسب ذیل معانی کیے ہیں
(١) حا، اللہ تعالیٰ کی حیات پر دلالت کرتی ہے اور میم اللہ تعالیٰ کے مجد اور بزرگی پر دلالت کرتی ہے اور یہ قسم ہے اور اس کا معنی ہے : میری حیات اور میرے مجد کی قسم ! یہ قرآن جس میں میں نے اپنے مومن بندوں پر رحمت کی خبر دی ہے، حق اور صدق ہے اور ہم نے اس کو عربی قرآن اس لیے بنایا ہے کہ تمہارے لیے اس کا معنی آسان ہوجائے۔ (لطائف الاشارات للقشیری ج ٣ ص ١٧٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
حا اور میم سے اللہ تعالیٰ کے دو اسموں کی طرف اشارہ ہے : حنان اور منان۔ علامہ فیروز آبادی نے کہا : الحنان، اللہ تعالیٰ کا اسم ہے، اس کا معنی ہے : رحیم، یا وہ جو ایسے شخص کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس سے اعراض کرتا ہے۔ (القاموس : ١١٩١) اور المنان بھی اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے، منان کا معنی ہے : جو ابتداء عطا کرنے والا ہو۔ (القاموس : ١٢٣٥)
حم ٓ قسم ہے اور ”والکتب المبین“ کا عطف حم ٓ کی قسم اور کتاب مبین کی قسم، کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور اس کو مبین فرمانے کی تین تفسیریں ہیں : (١) ابومعاذ نے کہا : قرآن مجید کے حروف واضح ہیں (٢) قتادہ نے کہا : اس کی ہدایت، رشد اور برکت بالکل واضح ہے (٣) مقاتل نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس کے احکام یعنی حلال اور حرام وضاحت سے بیان فرمادیئے ہیں۔ (النکت والعیون ج ٤ ص ٢١٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
کتاب کو قرآن عربی فرمانے کی وجوہ
یہ قسم کا جواب ہے اور اس کی تفسیر میں تین قول ہیں : (١) سدی نے کہا : ہم نے اس کو عربی میں نازل کیا ہے (٢) مجاہد نے کہا : ہم نے عربی میں کہا ہے (٣) سفیان ثوری نے کہا : ہم نے اس کو عربی میں بیان کیا ہے، یہ تینوں تفسیریں متقارب ہیں۔
عربی کا معنی یہ ہے کہ یہ عربی زبان میں ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں : (١) مقاتل نے کہا : اس کو عربی زبان میں اس لیے نازل کیا کہ آسمان والوں کی زبان عربی ہے (٢) سفیان ثوری نے کہا : ہر نبی پر اس زبان میں کتاب نازل کی گئی جو اس کی قوم کی زبان ہے۔
اس کے بعد فرمایا : ” تاکہ تم سمجھ سکو “ اس کی تفسیر میں بھی دو قول ہیں :
(١) ابن عیسیٰ نے کہا : اگر یہ آیت خصوصیت سے اہل عرب کے متعلق ہے تو اس کا معنی ہے : تاکہ تم سمجھ سکو۔
(٢) ابن زید نے کہا : اگر یہ عرب اور عجم دونوں سے خطاب ہے تو اس کا معنی ہے : تاکہ تم غور و فکر کرسکو۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢١٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وَاِنَّهٗ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ
لوح محفوظ میں قرآن مجید اور مخلوق کے اعمال کا ثابت ہونا
اس آیت کی دو تفسیریں ہیں : ایک تفسیر یہ ہے کہ یہ قرآن لوح محفوظ میں ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ مخلوق کے اعمال لوح محفوظ میں ہیں۔ اگر یہ مراد ہو کہ یہ قرآن لوح محفوظ میں ہے تو اس کے بلند مرتبہ ہونے کا معنی یہ ہے : یہ بہت محکم اور منضبط ہے، اس میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے اور حکیم کا معنی ہے : اس میں حکمت آمیز کلام ہے۔ اور اس کے لوح محفوظ میں ہونے کی تائید میں یہ آیتیں ہیں :
إنه لقرآن کریم في کتب مکنون (الواقعہ :77-78) بےشک یہ قرآن بہت عزت والا ہے یہ محفوظ کتاب میں درج ہے
بل ھو قرآن مجید في لوح محفوظ (البروج :21-22) بلکہ یہ عظمت والا قرآن ہے لوح محفوظ میں مندرج ہے۔
اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ مخلوق کے تمام اعمال خواہ وہ ایمان اور کفر ہوں یا اطاعت اور معصیت ہوں، وہ سب لوح محفوظ میں ثابت ہیں اور اب بلند مرتبہ کا یہ معنی ہے کہ وہ اعمال ایسی جگہ لکھے ہوئے ہیں جو اس سے بلند ہے کہ کوئی شخص اس میں ردوبدل کرسکے اور حکیم کا معنی ہے : وہ محکم ہے، اس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوسکتا۔ لوح محفوظ میں مخلوق کے اعمال لکھے جانے کی تفصیل اس حدیث میں ہے :
عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ میں آیا تو میری ملاقات عطاء بن ابی رباح سے ہوئی، میں نے ان سے کہا : اے ابو محمد ! اہل بصرہ تقدیر کے متعلق بحث کرتے ہیں، انھوں نے پوچھا : اے بیٹے ! تم قرآن مجید پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! انھوں نے کہا : سورة الزخرف پڑھو، جب میں نے یہ آیت پڑھی : ” وانہ فی ام الکتب لدینا لعلی حکیم “ (الزخرف :4) تو انھوں نے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ ام الکتب کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، انھوں نے کہا : یہ وہ کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے لکھا اور اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ فرعون اہل دوزخ سے ہے اور اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ” تبت یدا ابی لھب وتب “ عطاء کہتے ہیں کہ پھر حضرت عبادہ بن الصامت (رض) کے بیٹے ولید سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے والد نے موت کے وقت کیا وصیت کی تھی ؟ اس نے کہا : انھوں نے مجھے بلا کر فرمایا : اے میرے بیٹے ! اللہ سے ڈرو اور تم اس وقت تک اللہ سے نہیں ڈر سکو گے حتیٰ کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور ہر خیر اور شر کے اللہ سے وابستہ ہونے پر ایمان لاؤ، اگر تم اس کے خلاف عقیدہ پر مرگئے تو دوزخ میں داخل ہوگے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : بیشک سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : لکھو، اس نے کہا : کیا لکھوں ؟ فرمایا : تقدیر کو لکھو اور جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ابد تک ہونے والا ہے اس کو لکھو۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٢٥٥، مسند احمد ج ٥ ص ٣١٧، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٠٠)
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِيْنَ
علامہ محلی (رح) فرماتے ہیں ”نضرب نسلک“ یعنی روکنا کے معنی میں ہے۔ (جلالین : ص : ٤٠٦: ج : ٢)
اس تفسیر کی رو سے مطلب یہ ہوا کہ ہم روک لیں تم سے قرآن کریم۔ صاحب کشاف نے اس کا معنی کیا افننحیٰ : یعنی پہلو تہی کرنا۔ (کشاف : ص : ٢٣٧: ج : ٤) اس تفسیر کی رو سے مطلب یہ ہے کہ کیا ہم پہلو تہی کریں گے تم سے اس ذکر کے بارے میں اور لوٹا دیں گے تم کو ” صفحاً “ ترکیب میں کیا ہے ؟ اس میں دو وجہیں ہیں۔ (١) مفعول لہ ہے اس کا معنی ہے کیا ہم روک لیں تم سے ذکر کو پہلو تہی کی وجہ سے۔ (٢) حال ہے اور مصدر ہے جمع ” صافحین “ کے معنی میں۔ مطلب یہ ہے کہ ” افنضرب عنکم الذکر صافحین “ کیا ہم روک دیں گے تم سے قرآن کو دراں حالانکہ ہم پہلو تہی کرنے والے ہیں۔” ان “ تعلیلیہ ہے اس لیے کہ تم مسرف قوم ہو۔ یعنی حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو اس وجہ سے ہم تم سے قرآن پاک کو روک نہیں لیں گے بلکہ تم تک اس قرآن کو پہنچائیں گے ماننا اور نہ ماننا تمہارا کام ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب (رح) لکھتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دعوت و تبلیغ کا کام کرتا ہے اسے ہر شخص کے پاس پیغام حق لے جانا چاہیے اور کسی گروہ یا جماعت کو تبلیغ کرنا محض اس بناء پر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ وہ تو انتہاء درجے کے ملحد بےدین یا فاسق وفاجر ہیں انھیں کیا تبلیغ کی جائے۔ (معارف القرآن : ص : ٧١٨: ج : ٧)
الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
اللہ کی نعمتیں
یہ آیات بظاہر بڑی سیدھی سادی ہیں مگر ان کے اندر بیشمار سائنسی حقائق پوشیدہ ہیں۔ مثلاً : زمین کی ساخت اس کے اوپر کئے گئے تمام انتظامات یعنی راستوں کا بننا، پانی کا برسنا پھر نقل و حمل کے ذرائع اور پھر بالآخر مر کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کرجانا۔ یہ سب کچھ کیونکہ ہر روز ہوتا رہتا ہے اس لیے ہمارے لیے معمولی باتیں ہیں۔ لیکن جب ہم ان تمام چیزوں پر غور کرتے ہیں تو پھر ہمیں ان تمام باتوں کی تہہ میں بڑے بڑے عجیب و غریب راز دکھائی دیتے ہیں جو اللہ کی عظمت اور طاقت کا زندہ ثبوت ہیں۔
سب سے پہلے ہم زمین کو لیتے ہیں، مختصراً یہ ہے کہ اس عجیب و غریب گولے کو پوری طرح جان لینا انسان کے لیے فی الحال ممکن نہیں ہوسکا۔ ہم اسی سے پیدا کئے گئے اسی پر پرورش پاتے ہیں اور پھر اسی کے اندر چھپا دیئے جاتے ہیں جب کہ ہماری روح اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ بارش اور زمین کا تعلق بڑا گہرا ہے۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب لکھتے ہیں : ایک تحقیق میں امریکہ کے ونسٹن جے شیفرڈ نے بتایا کہ پانی کے قطرے جب وہ بہت چھوٹے اور خالص ہوں تو 4C ڈگری تک نہیں جمتے اگر پانی ناخالص اور بڑی مقدار میں ہو تو وہ صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر جم جاتا ہے۔ بادل ایک خاص مادی ساخت ہے جو بھاپ سے بنتا ہے لیکن جو فوراًہی پانی کے باریک قطروں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس لیے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے فضائی بادل جمتے نہیں اور نہ ہی 3C (نقطہ انجماد سے نیجے) زمین پر گرتے ہیں۔
مزید لکھتے ہیں : سمندر میں نمکین پانی، بخارات کے عمل میں شامل ہو کر نمک کے قطرے بھاپ میں شامل کردیتا ہے یہ تمام عمل ایک انتہائی خاص اور باریک انداز کو ظاہر کرتا ہے۔ جو اللہ کی قدرت کو ظاہر کرتا ہے پھر یہ کہ کہاں اور کس وقت کتنی بارش کی ضرورت ہے۔ یہ سب اللہ کی حکمتیں اور اندازے کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس کا ذکر آیت نمبر (11) میں کیا گیا ہے۔ دوسرا نقطہ جو اسی آیت میں بیان کیا گیا ہے وہ ہے تشبیہ یعنی جس طرح مردہ زمین بارش سے زندہ ہوجاتی ہے انسان بھی اسی طرح دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔ اس کی وضاحت بھی ہوچکی ہے مختصراً دوبارہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ بارش حیاتی سلسلے کو کس طرح جلا بخشتی ہے۔
ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب اس کو بڑے اچھے انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
زندہ چیزوں کے بنیادی کیمیائی اجزاء ہائیڈروجن کا ایک پل سا ہوتا ہے جس سے ایک عضو کی زندگی قائم رہتی ہے جسے ہائیڈروجن بندھن (Hydrogen Bond) بھی کہتے ہیں یہ ہائیڈروجن اکثر تبدیل ہو کر نئے بندھن بناتا ہے اور اس طرح vitality کو بدلتا رہتا ہے۔ یہ ہائیڈروجن کے متبادل صرف پانی کے بہاؤ یا روانیت سے پیدا شدہ ہائیڈروجن سے ممکن ہوسکتا ہے اس لیے پانی زندگی کے لیے ناگزیر (ضروری) ہے۔ ہمارا دوبارہ زندہ ہونا اللہ کے حکم کے مطابق ہمارے زندگی کے قوانین code کی مثل ہے جو زمین میں باقی رہتے ہیں۔ جس طرح بارش ایک مردہ زمین سے نامیاتی کو ڈکو بروئے کار لاتی ہے اور فورا زندگی جلا پاتی ہے اسی طرح اللہ کے حکم یا مرضی سے انسانی کوڈ بھی دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔ جس طرح اللہ بارش کی معرفت زیر زمین زندگی کو جلا دیتا ہے اسی طرح وہ جب چاہے گا ہمیں دوبارہ زندگی دے دے گا۔ ( از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق)
وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ
انسان جن سواریوں پر سواری کرتا ہے، وہ دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ سواریاں جن کے بنانے میں انسان کا کچھ نہ کچھ دخل ہوتا ہے۔ کشتیوں سے اس قسم کی سواریوں کی طرف اشارہ ہے، اور دوسری قسم کی سواریاں وہ ہیں جن کے بنانے میں انسان کا کوئی دخل ہی نہیں ہے، جیسے گھوڑے، اونٹ اور سواری کے دوسرے جانور، چوپایوں سے ان کی طرف اشارہ ہے۔ اور آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے کہ دونوں قسم کی سواریاں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں۔ سواری کے جانور اگرچہ انسان سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں انسان کے اس طرح قابو میں دے دیا ہے کہ ایک بچہ بھی ان کو لگام دے کر جہاں چاہے لیے پھرتا ہے۔ اور جن سواریوں کی صنعت میں انسان کا کچھ دخل ہے۔ مثلاً کشتیاں، جہاز، کاریں، ریلیں وغیرہ، ان کا خام مواد بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کو اتنی سمجھ دی ہے کہ وہ یہ سواریاں بنانے کے قابل ہوا۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ، وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ
یہ وہ دعا ہے جو کسی سواری پر سوار ہونے کے وقت پڑھنی چاہیے۔ اس میں اول تو اس بات کا شکر اور اعتراف ہے کہ یہ سواری اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اور دوسرے اس کے آخری جملے میں انسان کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی سفر کرتے وقت یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسے ایک آخری سفر پیش آنے والا ہے جس میں وہ دنیا کو چھوڑ کر اپنے پروردگار کے پاس پہنچے گا، اور اس وقت اپنے سارے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ اس لیے یہاں رہتے ہوئے کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں وہاں شرمندگی اٹھانی پڑے۔
وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ
مشرکین عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں
یہاں سے ان کے اس عقیدے کی تردید کی جارہی ہے اور اس کے خلاف چار دلیلیں پیش کی گئی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی اولاد ہونا ناممکن ہے، اس لیے کہ اولاد ماں باپ کا جزء ہوتی ہے، کیونکہ وہ ان کے نطفے سے پیدا ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا کوئی جزء نہیں ہوسکتا وہ ہر قسم کے اجزاء سے پاک ہے، لہٰذا اس کی کوئی اولاد نہیں ہوسکتی، دوسرے یہ کہ ان مشرکین کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ اپنے لیے بیٹیوں کی ولادت کو عار سمجھتے ہیں اور اگر کسی کے یہاں کوئی لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ اس پر بہت مغموم ہوتا ہے، اب یہ عجیب بات ہے کہ بیٹی کو خود اپنے لیے تو عیب سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کی بیٹیاں ہیں، تیسرے اس عقیدے کی رو سے فرشتے مونث قرار پاتے ہیں، حالانکہ وہ مونث نہیں ہیں، چوتھے اگرچہ عورت ہونا حقیقت میں کوئی عیب یا عار کی بات نہیں ہے، لیکن عام طور سے عورتوں کی صلاحیتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں، کیونکہ ان کی زیادہ توجہ زیورات اور زیب وزینت کی طرف رہتی ہے، اور اپنی بات کو خوب واضح کرکے کہنے کی صلاحیت بھی اکثر ان میں کم ہوتی ہے، لہٰذا اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کو کوئی اولاد رکھنی منظور ہوتی تو وہ مونث ہی کا کیوں انتخاب فرماتا۔
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ
بیٹی کی پیدائش پر سوگ کرنا کفار کا کام ہے مومنوں کا نہیں
کفار عرب بیٹی کی پیدائش پر غصے سے آگ بگولہ ہوجاتے تھے افسوس آج بعض مسلمانوں کے خیالات بھی اسی طرح کے ہیں اگر ان کے ہاں چند بیٹیاں لگاتار پیدا ہوجائے تو غصے میں بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں جب کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے ہاں بیٹی ہوئی اور اس نے اسے حقیر نہ جانا نہ بیٹا ہونے کو اس پر ترجیح دی اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا (ابو داود کتاب الادب باب 120 حدیث 5146)
اَوَمَنْ يُّنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِـصَامِ غَيْرُ مُبِيْنٍ
زیورات عورتوں کے لئے حلال ہے مردوں کے لئے نہیں :
اَوَمَنْ یُّنَشَّؤا فِی الْحِلْیَۃِ سے معلوم ہوا کہ عورت کو اللہ رب العزت نے زیورات پہننے کے لئے بنایا ہے تاکہ وہ اپنے حسن و جمال سے اپنے شوہر کو متاثر کرسکے اور ایک کامیاب بیوی ثابت ہو چنانچہ و زیورات میں پلتی بڑھتی ہے اور جو جو جوان ہوتی ہے زیورات کی کئی قسمیں پہننے لگتی ہے اس کے مقابلہ میں مرد زیورات اور جسمانی حسن سے نہیں بلکہ اپنی شجاعت و بہادری اپنے علم و فضل اور اپنے اعلی اوصاف و اخلاق سے صنف مخالف کو متاثر کرتا ہے کسی فرق کو واضح کرنے کے لیے شریعت نے مرد کے لیے زیورات حرام کیے ہیں۔
ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا آپ نے فرمایا ”میں تم پر اہل جہنم کا زیور دیکھتا ہوں“ ، وہ دوبارہ پیتل کی انگوٹھی پہن آیا آپ نے فرمایا ” مجھے تم سے بتوں کی بو آتی ہے “۔ وہ سونے کی انگوٹھی پہن آیا آپ نے فرمایا ” یہ لباس تو صرف جنت میں ملے گا “۔ (دنیا میں حلال نہیں) اس نے عرض کیا میں کیا زیور پہن سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ”صرف چاندی کی انگوٹھی جس کا وزن ایک مثقال سے کم ہو“۔ (ایک مثقال ساڑھے سات ماشہ ہے، بہار شریعت جلد 16 صفحہ 70) (ترمذی کتاب اللباس باب 43 حدیث 1785، ابو داؤد کتاب الخاتم باب 4 ۔ نسائی کتاب الزینۃ باب 46، مسند احمد جلد 5 صفحہ 33)
وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ ۭ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ
معتزلہ کا جبر یہ پر اعتراض اور امام رازی کا جبریہ کی طرف سے جواب
امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
معتزلہ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ آیت جبریہ کے قول کے فساد پر دلالت کرتی ہے، جبریہ یہ کہتے ہیں کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ہوتا ہے اور اس آیت میں مذکور ہے کہ کفار نے کہا : اگر رحمان چاہتا تو ہم بتوں کی عبادت نہ کرتے، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا کہ ان کو کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہیں، اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ گویا کفار نے کہا : ہم نے اللہ کے چاہنے اور اس کے ارادہ کی وجہ سے بتوں کی عبادت کی اور یہی جبریہ کا مذہب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو صراحتاً رد کردیا کہ ان کو کچھ علم نہیں ہے، وہ محض اٹکل پچو سے باتیں کررہے ہیں، لہٰذا جبر یہ کا مسلک باطل ہوگیا۔ اس آیت کی نظیر سورة الانعام کی یہ آیت ہے:
{سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ } [الأنعام: 148]
عنقریب مشرکین یہ کہیں گے : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے، اسی طرح ان سے پہلو نے تکذیب کی تھی حتیٰ کہ انھوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھ لیا، آپ کہیے : کیا تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے لاؤ، تم لوگ صرف اپنے گمان کی پیروی کررہے ہو اور تم محض اٹکل پچو سے باتیں کررہے ہو
امام رازی فرماتے ہیں : معتزلہ کے اس اعتراض کا برحق جواب وہ ہے ،وہ یہ ہے کہ کفار نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کفر کا ارادہ کیا اور جب اس نے ان سے کفر کا ارادہ کیا تو اب اس کا ان کو ایمان لانے کا امر کرنا اور ایمان لانے کا حکم دینا جائز نہیں اور کفار کا اعتقاد یہ تھا کہ امر اور ارادہ کو مطابق ہونا چاہیے اور ہمارے نزدیک کفار کا یہ استدلال باطل ہے، پس کفار صرف اس وجہ سے مذمت کے مستحق نہیں ہوئے کہ انھوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کافر سے کفر کا ارادہ کرتا ہے، بلکہ وہ اس وجہ سے مذمت کا مستحق ہوئے کہ انھوں نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے ان سے کفر کا ارادہ کرلیا تو اب ان کو ایمان لانے کا حکم دینا اس کے لیے قبیح ہے اور جائز نہیں اور جب ہم نے کفار کی مذمت کرنے کو اس طرف راجع کیا تو اب معتزلہ کا جبریہ پر جو اعتراض تھا وہ ساقت ہوگیا اور اس کی پوری تقریر سورة الانعام میں ہے۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ٦٢٧۔ ٦٢٦، ملخصا، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ ۙاِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ
دنیاوی مال ومتاع کا مذموم ہونا
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ کفار اپنے آباؤ اجداد کی گمراہی اور کفر میں اندھی تقلید کررہے ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس اور کوئی دلیل نہیں ہے، نیز یہ فرمایا کہ اس بستی کے خوشحال اور آسودہ حال لوگوں نے اپنے کفر پر اپنے آباؤاجداد کی تقلید کو دلیل بنایا، یعنی ان کی خوشحالی اور مال و دولت کی کثرت نے ان کو دنیا کی لذتوں اور شہوتوں میں اس قدر بدمست کردیا کہ وہ آخرت سے بالکل بےبہرہ ہوگئے اور احادیث میں بھی اس کا بیان ہے کہ دنیا کی رنگینیوں اور عیش ونشاط سے انسان آخرت سے غافل ہوجاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا حال ہے جو دولت مندوں کی تکریم کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کی تخفیف کرتے ہیں اور قرآن مجید کی ان آیات پر عمل کرتے ہیں جو ان کی خواہشوں کے موافق ہوں اور جو آیات ان کی خواہشوں کے خلاف ہوں ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور ایسی صورت میں وہ قرآن کی بعض آیات پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا کفر کرتے ہیں اور اس چیز کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں جو ان کو بغیر محنت کے حاصل ہوجائے، وہ ان کی تقدیر ہو یا رزق مقسوم ہو اور اس چیز کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتے جس میں محنت کرنی پڑتی ہے جو کہ آخرت میں ان کی وافر جزاء ہے اور ان کا وہ شکر ہے جس پر اجر ملتا ہے اور یہ وہ تجارت ہے جس میں گھاٹا نہیں ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٤٣٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں ایک روای عمر بن یزید الرفاء ضعیف ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٧٠٤)
حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص پر بھی دنیا کھول دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لبے بغض اور عداوت ڈال دیتا ہے، حضرت عمر نے کہا : میں اس سے ڈرتا ہوں۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٠٩، امام بزار کی سند میں ابن لحیعہ نام کا ضعیف راوی ہے)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے تم پر فقر کا خطرہ نہیں ہے، لیکن مجھے تم پر مال کی کثرت کا خوف ہے اور مجھے تم پر خطاء کا خطرہ نہیں ہے لیکن مجھے تم پر عمد کا خطرہ ہے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٨٠٦٠، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٧٤٢ )
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖٓ اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ
حق و صداقت کا انکار کرنے والے کے سامنے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر وہ قریش مکہ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا جدا مجد مانتے اور ان کی نسبت پر فخر کرنے کے باوجود کفرو شرک کی گندگیوں میں ملوث تھے ان کو شرم دلاتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے جب اپنے ارد گرد مشرکانہ معاشرہ ، بت گرا اور بت پرست خاندان اور طرح طرح کی جاہلانہ رسموں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو دیکھا اور غور کیا تو انھوں نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کفر و شرک کے ہر طریقے کا انکار کردیا ۔ انھوں نے کسی مصلحت کا سہارا لیے بغیر صاف صاف اعلان کردیا کہ جن لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے معبود گھڑ کر ان کی عبادت و بندگی کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے وہ قطعاً باطل ، جھوٹ اور ایک بےحقیقت اور بےبنیاد بات ہے۔ جب انھوں نے اس کلمہ حق کو بلند کیا تو ہر شخص ان کی جان کا دشمن بن گیا اور ان کو ہر طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کو ایک زبردست آگ میں جھونک دیا گیا ، وطن سے بےوطن ہوئے ، گھر بار کی ہر راحت و آرام سے محروم کردیئے گئے عراق ، فلسطین ، حجاز اور دوسری جگہوں میں مسلسل گشت کر کے اس کلمہ حق کو بلند کرتے رہے جس میں ساری انسانیت کی فلاح اور بہبود کے راز پوشیدہ ہیں ۔ انھوں نے اس کلمہ حق کے لیے پوری زندگی ہجرت اور مشکلات میں گزار دی لیکن کفر و شرک سے سمجھوتہ نہیں کیا اور کلمہ حق کو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنا کر باقی رکھا ۔ کفار قریش سے کہا جا رہا ہے کہ حق و صداقت اور کلمہ باقیہ کی یہی وہ سیدھی سچی راہ ہے جس کو نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے ہیں ۔ اس میں یہ ارشارہ موجود ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) اور ان کے راستے پر چلنے والوں کو کامیاب و بامراد کیا اسی طرح وہ اللہ حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر ایمان لانے والوں کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچا کر رہے گا
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ ان دوشہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں اور مکہ کے بڑے آدمی کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد الولید بن المغیرہ ہے۔
(٢) مجاہد نے کہا : اس سے مراد عتبہ بن ربیعہ ہے۔
اور طائف کے بڑے آدمی کے متعلق چار قول ہیں :
(١) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد حبیب بن عمر ثقفی ہے۔
(٢) مجاہد نے کہا : اس سے مراد میر بن عبدیا لیل ثقفی ہے۔
(٣) قتادہ نے کہا : اس سے مراد عمرو بن مسعود ہے۔
(٤) السدی نے کہا : اس سے مراد کنانہ عبد بن عمرو ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٢٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
یہ آخری اعتراض ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر معاندین کی طرف سے ساحر وغیرہ قرار دیئے جانے کے بعد عائد کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ اگر یہ واقعی رسول ہیں تو یہ ہم میں سے کوئی بہت بڑے آدمی بلحاظ جاہ وتمول کے کیوں نہ ہوئے ؟ کہ عوام اپنے رؤساء کی راہ پر قدرۃ چلنے لگتے ہیں، گویا اعتراض کی اصل یہ تھی کہ ان لوگوں کے زعم میں جاہ و ریاست لوازم نبوت ومقبولیت میں سے ہے۔ (آیت) ”ھذا ۔۔ کفرون“. معاندین نے اعجاز قرآنی سے عاجز ولاجواب ہو کر یہی کہنا شروع کیا تھا کہ یہ کلام جو اس درجہ موثر ہے، یہ تو سحر وساحری کا نتیجہ ہے۔ (آیت) ”القریتین“. دوشہروں سے مراد مکہ وطائف ہیں جو اس وقت حجاز کے مرکز تہذیب و تمدن تھے۔ (آیت) ”عظیم“. یہ صفت (آیت) ”رجل“. کی ہے۔ مراد یہ ہے کہ قرآن کو نازل ہی ہونا تھا تو کسی صاحب مال وجاہ یا صاحب ریاست پر کیوں نہ نازل ہوا۔ ھوالذی یکون کثیر المال والجاہ (کبیر) قریش کے ہاں اکثر جاہلی قوموں کی طرح کسی شخص کا اولاد اکبر میں سے ہونا ایک بڑا معیار ریاست وسرداری کا تھا، ہمارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد اول تو اپنے والد کی اولاد اکبرنہ تھے۔ اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائشی یتیمی، جس کی بناء پر آپ اپنی کفالت کے لیے پہلے دادا اور پھر ایک نسبتا مفلس چچا کے دست نگر رہے۔ یہ سب باتیں مل ملا کر آپ کو کسی طرح بھی قریش کی نظر میں ” عظیم “ نہیں بننے دیتی تھیں،
اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۭ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ
قرآن میں عام طور سے روحانی ترقی اور روحانی مرتبے کو رحمت رب سے تعبیر کیا ہے خواہ یہ روحانیت نبوت کی ہو یا ولایت اور امامت کی ہو۔
اسی طرح یہاں بھی رحمت ربک سے مراد نبوت ہے چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ملنے پر کفار معترض تھے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خود نبوت کو تقسیم کرنے کے خواہش مند تھے حضرت حق نے اس کا جواب فرمایا کہ نبوت جو آپ کے پروردگار کی رحمت کا ایک شعبہ ہے یہ کفار مکہ خود اس کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ نبوت تو بہت بلند اور بڑی اونچی چیز ہے اس کی تقسیم تو ان کے کیا سپرد ہوتی ہم نے تو دنیوی زندگی میں بھی ان کی روزی کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں نہیں دی بلکہ اپنی مصلحت کے موافق ہر شخص کی روزی ہم نے خود ہی تقسیم فرمائی اور بعض کو بعض پر فوقیت عطا کی تاکہ ایک سرمایہ دار غریب کو اجرت پر لے کر اس سے کام لے سکے اور اس طرح نظام عالم قائم رہے یا یہ مطلب کہ ایک دوسرے کا دست نگر رہے سرمایہ دار کو مزدور کی حاجت رہے اور مزدور سرمایہ دار کا محتاج رہے بہرحال نبوت تو بہت بالاتر ہے جس اس سے حقیر اور ادنیٰ درجے کی چیز ان کے ہاتھوں تقسیم نہیں کرائی تو نبوت ان کے ہاتھوں کس طرح تقسیم کرائی جاسکتی ہے۔
حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ نے روزی دینا کی تو ان کی تجویز پر نہیں بانٹی پیغمبر کیونکر دے ان کی تجویز پر۔
وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ
مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں اور اس کا سارا سازوسامان اللہ کے ہاں اس قدر حقیر وبے وقعت ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ خلقت کا رجحان تمام تر کفر کی جانب ہوجاتا ہے اور قریب قریب سب ہی ملت کفر اختیار کرنے لگتے تو اللہ صرف کافروں ہی کو دولت دنیوی و سامان مادی سے نواز دیتا۔ سب کو چاندی سونے کا بنا دیتا لیکن اگر ایسا ہوتا تو لوگ یہی سمجھنے لگتے کہ مقبولیت طریق کفر کو حاصل ہے، اور اسی طرف جھک پڑتے، والمقصود من ھذا الکلام تحقير الدنیا وبیان ما في المال والجاہ من المضار العظيمة وذلک لأن کثرۃ المال والجاہ تجعل الإنسان کالأعشی عن مطالعة ذکر الله تعالیٰ ومن صار کذلک صار جليسا للشیطان (کبیر) آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ مال وجاہ کی افراط نقصان و حرمان ہی باعث ہوتی ہے۔ تثبت بما ذکرنا ان کثرۃ المال والجاہ تو جب کمال النقصان والحرمان فی الدین والدنیا (کبیر) آیت سے ان ” مصلحین “ کی روش پر بھی روشنی پڑگئی جو اپنی تحریروں، تقریروں میں یورپ اور امریکا کے مال و دولت کا ذکر للچائے ہوئے لہجہ میں کرتے رہتے اور مسلمانوں کو اس طرح ترغیب دیتے رہتے ہیں کہ جیسے یہزرداری ہی ترقی کی معراج ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا حقیر ہونا
حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٢٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٠، المستدرک ج ٤ ص ٣٠٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٩٢٢ )
المستورد بن شداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کی جماعت میں تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک مرے ہوئے بکری کے بچے پر کھڑے ہوئے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دیکھ رہے ہو کہ یہ بکری کا بچہ اس کے مالکوں کے نزدیک کتنا حقیر تھا جب انھوں نے اس کو ڈال دیا تھا، ان لوگوں نے کہا : اس کے حقیر ہونے کی وجہ سے ہی انھوں نے اس کو ڈال دیا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مرا ہوا بکری کا بچہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر تھا۔ (شرح السنۃ رقم الحدیث : ٢٩٢٠، سنن الترمذی رقم الحدیث: ٢٣٢١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٥٧، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٨٦، مسند احمد ج ١ ص ٣٢٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٥٩٣)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مومن پر ظلم نہیں کرتا، اس کی نیکی اس کو دنیا میں دی جاتی ہے اور اس پر اس کو آخرت میں اجر دیا جائے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا اجر دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے اور جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی جس کا اجر اس کو آخرت میں دیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٠٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٧٧، مسند احمد ج ٣ ص ١٢٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٩ ص ٢٦٦، رقم الحدیث : ١٢٢٣٧، جامع المسانید والسنن مسند انس بن مالک رقم الحدیث : ٢٨١٨)
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ
قرآن کریم سے اعراض کرنے کی سزا
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآن سے منہ موڑنے کے باعث فوراً یہ سزا ملتی ہے کہ شیطان ہم نشین ہوجاتا ہے۔ اور خواہ وہ شیطان جن ہو یا آدمی کی شکل میں ہو اس پر مسلط رہتا ہے اور ٹھیک بات کی طرف اس کو آنے نہیں دیتا۔ آیت مذکورہ میں فرمایا گیا ہے کہ جو ذکر یعنی قرآن مجید سے اعراض و غفلت کر کے گمراہ و باطل اقوال و افکار کے پیچھے پڑجاتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کی غفلت اور ان کے کفر کی جزاء کے طور پر شیطان کو ان کے ساتھ لگا دیتے ہیں اور وہ ان کا دوست وہم نشین بن جاتا ہے، انھیں دنیا میں حلال سے روکتا ہے اور حرام پر ابھارتا ہے ، طاعات سے انھیں منع کرتا اور معاصی کا حکم کرتا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) کے قول سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے جب کہ ایک قول یہ ہے کہ شیطان کا ساتھ ہونا آخرت میں ہوگا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جب کافر اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کے ساتھ شیطان کی جوڑی بن جائے گی اور وہ شیطان مسلسل اس کے ساتھ لگا رہے گا۔ یہاں تک کہ دونوں جہنم میں داخل ہوجائے گے جب کہ ایک قول یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں سے ایک کی تخصیص نہیں بلکہ دونوں جگہ شیطان اس کا قرین اور ساتھ ہوگا (قالہ القشیری (رح) )
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اعراض اور اس کی کتاب سے غفلت کا دنیا میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسے شیاطین، اشرار اور جن و انس کے خبیث لوگوں کی صحت نصیب ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ ہر خیر سے دور اور ہر شر سے قریب ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ولا تکونوا کالذین نسوا الله فأنساھم أنفسھم (سورة الحشر : آیت ١٩)
اس کا یہی مطلب ہے یعنی انسان کے اپنے نفس کو بھول جانے کا مطلب وہی خیر کے کاموں سے اس کی غفلت اور جہالت اور اپنے برے بھلے کی تمیز سے محرومی ہے۔ یہاں تک کہ وہ انسان کو جہنم کی اندھی وادی میں جا پھینکتی ہے، نعوذ باللہ منہا
حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءَنَا قَالَ يٰلَيْتَ بَيْنِيْ وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ
ایک حدیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ کافر کا شیطان خواب وخور میں اس کا شریک رہتا ہے۔ اور مومن کا شیطان منتظر رہتا ہے کہ کب اسے غفلت ہو اور پہنچے اور اسے دبائے۔ (آیت) ”حتی إذا جآءنا“> یعنی یہ تغافل اور یہ مغالطہ بس وہی دنیوی زندگی تک رہتا ہے، اس کے ختم ہوتے ہی کشف حقائق ہونے لگتا ہے۔ (آیت) ”بعد المشرقین“. سے محاورہ میں مراد دو مشرقوں سے نہیں بلکہ مشرق ومغرب سے ہوتی ہے۔ یرید المشرق والمغرب والأصل بعد المشرق من المغرب والمغرب من المشرق (کشاف) ومن عادۃ العرب تسمیة الشیئین المتقابلین باسم أحدھما (کبیر)
وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ
مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کی تحقیق کی جائے کہ کیا سابقہ پیغمبروں کے زمانہ میں بھی کبھی کسی پیغمبر کے وقت میں ہم نے سوائے رحمان کے کسی دوسرے معبود کو مقرر کرنے اور پوجنے کا حکم دیا ہے یعنی اگرچہ رسول اس وقت نہیں ہیں ان کی کتابوں کو دیکھ کر بتاؤ کہ کسی نبی نے آج تک شرک کی تعلیم دی ہے۔
حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کسی دین میں شرک روا نہیں رکھا اور پوچھ دیکھ یعنی جس وقت ان کی ارواح سے ملاقات ہو یا ان کے احوال کی کتابوں سے تحقیق کر۔ ان سے پوچھا مجاز ہے ان کتابوں کی تحقیق کرنے میں۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا : آپ اہل توراۃ اور اہل انجیل سے سوال کیجئے، آیا ان کے پاس ان کے رسول صرف توحید کا قیغام لے کر آئے تھے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے یا اس کے علاوہ کسی اور خدا کی عبادت کا بھی پیغام لے کر آئے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٨٨٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ ابوعبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ، علامہ بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ اور علامہ آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی اس توجیہ کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٣٥، الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٨٨، تفسیر بیضاوی الخفاجی ج ٨ ص ٣٩٤، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٤٠، روح البیان ج ٨ ص ٥٠١، روح المعانی جز ٢٥ ص ١٣٢)
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَقَالَ اِنِّىْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح قریش کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے تم کو رسول بناکر بھیجا ہے اسی طرح فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے موسیٰ کو رسول بناکر بھیجا گیا تھا اور جس طرح قریش تمہاری نصیحت کو مسخرا پن میں اڑاتے ہیں اسی طرح فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ کی نصیحت کو مسخرا پن میں اڑایا۔ تب ہم نے طرح طرح کے عذاب ایک سے ایک بڑھ کر بھیجے، طوفان ، ٹڈی ، جوں، مینڈک ، خون ، قحط ، بیماری کہ کسی طرح تو یہ مانیں اور کفر چھوڑیں جب عذاب اترتا تو فرعون وغیرہ حضرت موسیٰ کو پکارتے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کرکے کہتا کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو اب کی مرتبہ ہم پر سے عذاب ہٹا دے ہم بیشک اہمان لائیں گے اور تمہارے رستے پر چلیں گے ہر آفت کے وقت فرمان برداری کا عہد کرکے آفت ٹل جانے کے بعد وہ لوگ اپنے عہد پر قائم نہ رہے۔
وَنَادٰى فِرْعَوْنُ فِيْ قَوْمِهٖ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَهٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
” ونادی فرعون “ تا ” مقترنین “ فرعون کے غرور و استکبار اور اس کی تعلی کا بیان ہے۔ فرعون نے جب دیکھا کہ بار بار موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ہٹ جاتا ہے، تو اسے خطرہ لاحق ہوا کہیں اس کی قوم کے دلوں میں اس کی عظمت نہ بیٹھ جائے اور ان کے دل اس کی طرف مائل نہ ہوجائیں اس لیے اپنی ساری رعیت میں یہ اعلان کرایا تاکہ اس کی حکومت و سلطنت اور شان و شوکت کا رعب قوم کے دلوں پر مضبوط ہوجائے۔ اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اس کو ترجیح دیں۔ میری قوم کے لوگو ! کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں ملک مصر کا مطلق العنان حکمران ہوں اور یہ نہریں میرے حکم سے چل رہی ہیں۔ کیا میں جو اس وسیع سلطنت کا بادشاہ اور اس ملک میں پورے اختیارات کا مالک ہوں، تمہارے لیے بہتر ہوں، یا یہ موسیٰ جو میرے مقابلہ میں نہایت حقیر اور ناچیز ہے اور اپنے مدعا پر واضح اور روشن حجت بھی پیش نہیں کرسکتا۔ یا صاف اور روانی سے بول بھی نہیں سکتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں معمولی سی لکنت باقی تھی لیکن فرعون نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اور اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے ” ولا یکاد یبین “ کہہ دیا۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مدعا پر واضح برہان نہیں لاسکتا اس صورت میں بھی یہ کلام محض عناد و مکابرہ پر مبنی ہے۔ لایبین حجتہ الدالۃ علی صدقہ فیما یدعی۔ (بحر ج 8 ص 23) ۔
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ
اس میں فرعون کو بھی گناہ گار کہا گیا ہے، اور اس کی قوم کو بھی۔ فرعون تو اس لیے گناہ گار تھا کہ اس نے اپنی سلطنت کو خدائی کی علامت قرار دے کر خدائی کا دعوی کیا، اور اپنی قوم کو بیوقوف بنایا اور اس کی قوم اس لیے گناہ گار تھی کہ اس نے ایسے گمراہ شخص کو اپنا حکمران تسلیم کیا، اور اس کی تمام گمراہیوں میں اس کی پیروی کی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی قوم پر کوئی گمراہ شخص مسلط ہوجائے، اور وہ اپنی طاقت کے مطابق اسے ہٹانے کی کوشش کرنے کے بجائے ہر غلط کام میں اس کی اطاعت کئے جائے تو وہ بھی مجرم قرار پاتی ہے۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ
جب سورة انبیاء کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں بت پرستوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا تھا کہ یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں : 98 ۔ تو ایک کافر نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی عبادت کرتے ہیں، اس لیے اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ (معاذ اللہ) وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں، حالانکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ اس کی یہ بات سن کر دوسرے کافروں نے خوب شور مچایا کہ واقعی اس شخص نے بہت زبردست اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ اعتراض بالکل لغو تھا، کیونکہ اس آیت میں بت پرستوں سے خطاب تھا، عیسائیوں سے نہیں، اور اس میں بتوں کے علاوہ وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہو۔ لہٰذا اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے داخل ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ یہ آیتیں اس موقع پر نازل ہوئی تھیں۔ اس آیت کے شان، نزول میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ کافر لوگوں میں سے کسی نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی وقت اپنے آپ کو اسی طرح خدا کا بیٹا قرار دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا تھا، اس پر بھی دوسرے مشرکین نے اس کی تعریف میں خوشی سے شور مچایا، اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ دونوں واقعے پیش آئے ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کا جامع جواب اس آیت کے ذریعے نازل فرما دیا ہو۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ امام ابن اسحاق سے روایت کرتے ہیں :
ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الولید بن المغیرہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو النضر بن الحارث دیگر کفار قریش کے ساتھ آکر آپ کے سامنے بیٹھ گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی : ” انکم وما تعبدون میں دون اللہ حصب جھنم “ (الانبیاء : ٩٨) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مجلس سے اٹھ کر چلے گئے اور وہاں عبداللہ بن الزبعری آگیا اور الولید بن المغیرہ نے عبداللہ بن الزبعری سے کہا : عبدالمطلب کے بیٹے یہ کہتے ہیں کہ ہم جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور وہ جہنم کا ایندھن ہیں، عبداللہ بن الزبعری نے کہا : سنو اللہ کی قسم ! اگر مجھے وہ مل جاتے تو میں ان سے بحث کرتا، پس (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کرو کہ کیا ہر وہ شخص جس کی اللہ چھورڑ کر عبادت کی گئی ہے وہ اپنی عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں ہوگا ؟ ہم فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور یود عزیر کی عبادت کرتے ہیں اور نصاری عیسیٰ ابن مریم کی عبادت کرتے ہیں۔ تب ولید بن مغیرہ اور تمام اہل مجلس عبداللہ بن زبعری کے کلام سے حیران ہوئے اور ان کو یہ یقین تھا کہ ابن الزبعری نے لاجواب کلام کیا ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ابن الزبعری کا اعتراض ذور کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کی جائے تو وہ اپنی عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں ہوگا، یہ لوگ صرف شیطان کی عبادت کرتے ہیں اور جن کی عبادت کرنے کا شیطان حکم دیتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ” بیشک جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے اچھی جزاء پہلے سے مقرر ہوچکی ہے، وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے “۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٨٧٧٦، تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٢٢٠، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٧٣٩، الجامع لاحکام القرآن جز ١١ ص ٢٤٩، روح المعانی جز ١٧ ص ١٤٠۔ ١٣٩، السیرۃ النبویہ لابن ہشام ج ١ ص ٣٩٧)
وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَةً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَ
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے جو تمہارے بعد زمین میں رہتے، بستے اور فرشتوں کے آسمانوں پر رہنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے حتیٰ کہ ان کی عبادت کی جائے یا یہ کہا جائے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٩٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اے مردو ! ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے اور تمہارے بعد زمین پر فرشتے اس طرح رہتے جس طرح تمہاری اولاد تمہارے بعد رہتی ہے اور جس طرح ہم نے عیسیٰ کو عورت سے بغیر مرد کے پیدا کردیا تاکہ تم ہماری عظیم قدرت کو پہچانو اور تم یہ جان لو کہ فرشتوں کا بھی اسی طرح پیدا ہونا ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہوں۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٤٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
وَلَمَّا جَاۗءَ عِيْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِاُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ان معجزات سے مراد ہے : مُردوں کو زندہ کرنا، مادر زاداندھوں کو بینا کرنا، مٹی کے پرندے بنا کر ان کو فضا میں اڑا دینا اور آسمان سے دستر خوان نازل کرنا اور غیب کی خبریں دینا۔ قتادہ نے کہا : ” بینات “ سے مراد انجیل ہے اور سدی کی روایت ہے : اس سے مراد ہے نیک کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا۔
نیز اس میں فرمایا : ” اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض ان چیزوں کا بیان کردوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو “۔
زجاج نے کہا : وہ لوگ اس میں اختلاف کرتے تھے کہ توراۃ میں تبدیلی ہوئی ہے یا نہیں۔
بعض نے کہا : وہ توراۃ کے اور احکام کے متعلق سوال کرتے تھے اور حضرت عیسیٰ ان کو جواب دیتے تھے۔
بعض نے کہا : وہ اکثر ایسی چیزوں کا سوال کرتے تھے جن کے جاننے میں کوئی فائدہ نہیں ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو ان چیزوں کا جواب دیتے تھے جن کے جاننے میں ان کا فائدہ تھا۔
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ اَلِيْمٍ
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں دو بڑے گروہوں کے درمیان شدید اختلافات پید اہو گئے۔ یہودی آپ ( علیہ السلام) کی مخالفت میں اس حدتک چلے گئے کہ انھوں نے آپ ( علیہ السلام) کو جادو گر ‘ مرتد اور ولد الزنا (نقل کفر ‘ کفر نباشد) قرار دے دیا۔ ان کے مقابلے میں عیسائیوں نے دوسری انتہا پر جا کر آپ ( علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ ) اللہ کا بیٹا بنا دیا اور آپ ( علیہ السلام) کے بارے میں یہ عقیدہ بھی گھڑ لیا کہ آپ ( علیہ السلام) اپنے نام لیواؤں کی طرف سے خود سولی پر چڑھ گئے ہیں اور یوں آپ ( علیہ السلام) کی یہ ” قربانی “ آپ ( علیہ السلام) کے ہر ماننے والے کے گناہوں کا کفارہ بن گئی ہے۔ بہرحال یہ دونوں رویے ّانتہائی غلط ہیں۔
وَقِيْلِهٖ يٰرَبِّ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ
اس آیت کی نحوی ترکیب میں مفسرین میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وَقِیْلِہٖ کا عطف اوپر والی آیت میں بِالْحَقِّ پر ہے یعنی وہ صرف حق بات کہیں گے اور ان کی شہادت یہ ہوگی کہ اے رب ان کے ایمان نہ لانے میں اصلی قصور ان ہی کا ہے۔ یہ خود ایمان لانے والے نہیں تھے۔
بعض مفسرین کا گمان یہ ہے کہ اس میں ”واؤ“ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے۔ اور اس کا تعلق فَاَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ سے ہے۔ اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹتی ہے جس پر بعد والا فقرہ دلالت کررہا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے رب ! یہ وہ لوگ ہیں جو خود ایمان لانے والا نہ بنے۔ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی شہادت دیں گے کہ میری ساری تبلیغی کاوشوں کے باوجود ان کی فریب خوردگی کا عالم یہ رہا کہ یہ وہ مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا بھی اور ان کے معبودوں کا بھی خالق ہے۔ باایں ہمہ وہ خالق کے ساتھ ساتھ یا اس کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے تھے۔ یہ ان کی ہٹ دھرمی ان کی تباہی کا باعث بنی۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.