Hamare Masayil Aur Unka Hal

اگلی صفوں کو چھوڑ کر جماعت کرنا

اگلی صفوں کو چھوڑ کر جماعت کرنا ہر حال میں مکروہ نہیں۔

   سوال: کیا امام کامحراب کو چھوڑ کر ایک دو صف پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھانا یا صحن میں نماز پڑھنا باعث تقلیل ثواب ہے؟ یا ایسا کرنا گناہ کا کام ہے؟ جیسا کہ ایک صاحب ایسا کہہ رہے ہیں، یا پھر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؟

امید کہ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

   المستفتی : منظر کمال ندوی مئو۔

 ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

مسئولہ صورت میں اگر مسجد کشادہ ہے اور مقتدیوں کو جگہ کی تنگی نہیں ہوتی ہو، تو ایسی صورت میں اگر امام برآمدے یا صحن میں کسی مصلحت سے محراب کی سیدھ یعنی صفوں کے بیچ میں کھڑے ہوکر نماز پڑھائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس سے نہ ثواب میں کمی ہوگی نہ شرعی اعتبار سے کوئی حرج ہے۔ (مستفاد فتاوی دارالعلوم (14/81)

نوٹ: اگر بلا وجہ محراب سےمتصل صفوں کو چھوڑ کر پیچھے نماز پڑھی جائے یا کسی ضرورت مثلاً گرمی میں ہوا کے مقصد سے یا ٹھنڈک میں دھوپ کی وجہ سے باہر کے حصہ میں جماعت ہو اور لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ صف لگانے میں دشواری پیش آئے تو ایسی صورت میں اگلی صفوں کو چھوڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہوگا، علامہ شامی نے  ایک جگہ اس طرح نماز پڑھنے کو مطلق مکروہ لکھا ہے شاید اسی جزئیہ سے کسی کو غلط فہمی ہوئی ہو لیکن دوسری جگہ صراحت ہے کہ یہ مسئلہ مطلق نہیں بلکہ اگر مقتدیوں کی تعداد زیادہ اور امام کے محراب چھوڑ کر کھڑے ہونے کی وجہ سے امام صفوں کے بیچ میں نہ رہے، نیز یہ مسئلہ مستقل امام کے ساتھ خاص ہے یعنی اگر کچھ لوگ اپنی جماعت کر رہے ہوں تو ان کو کنارے ہی جماعت کرنی چاہئے، اس طرح بلا وجہ مسجد کے اگلے حصے کو ترک کر دینا یا ترک کرنے کی وجہ سے لوگوں کو دشواری ہو وغیرہ وغیرہ تو مکروہ ہے ورنہ نہیں۔

الدلائل

مطلب في كراهة قيام الإمام في غير المحراب : تنبيه يفهم من قوله: “أو إلى سارية” كراهة قيام الإمام في غير المحراب، ويؤيده قوله قبله: “السنة أن يقوم في المحراب”، وكذا قوله في موضع آخر : “السنة أن یقوم الإمام إزاء وسط الصف ألا ترى أن المحاريب ما نصبت إلا وسط المساجد وهي قد عينت لمقام الإمام”، اه. والظاهر أن هذا في الإمام الراتب لجماعة كثيرة لئلا یلزم عدم قیامه في الوسط، فلو لم یلزم ذلک لا یکره. (رد المحتار 568/1، بيروت).

تنبيه : في معراج الدراية من باب الإمامة : الأصح ما روي عن أبي حنيفة أنه قال: أكره للإمام أن يقوم بين الساريتين أو زاوية أو ناحية المسجد أو إلى سارية لأنه بخلاف عمل الأمة. اه. وفيه أيضا: السنة أن يقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا ترى أن المحاريب ما نصبت إلا وسط المساجد وهي قد عينت لمقام الإمام. اه.

وفي التاترخانية: ويكره أن يقوم في غير المحراب إلا لضرورة. اه. ومقتضاه أن الإمام لو ترك المحراب وقام في غيره يكره ولو كان قيامه في وسط الصف؛ لأنه خلاف عمل الأمة، وهو ظاهر في الإمام الراتب دون غيره والمنفرد، فاغتنم هذه الفائدة فإنه وقع السؤال عنها ولم يوجد نص فيها. (رد المحتار 646/1 بيروت).

وفي درر الحكام شرح غرر الأحكام : ولو لم تبن (المحاريب) كانت السنة أن يتقدم في محاذاة ذلك المكان؛ لأنه يحاذي وسط الصف وهو المطلوب إذ قيامه في غير محاذاته مكروه. (الصلاة/ مكروهات الصلاة، 483/1).

     حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله

أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند

   29/12/1439ه 10/9/ 2018م الاثنين

 ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply