(سلسلہ نمبر: 757- 762)
نماز عید اور عیدگاہ سے متعلق بعض مسائل
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ:
(1) ہمارے علاقے میں عید کی نماز بغیر کسی خاص وجہ اور عذر کے محلہ کی چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں پڑھنے کا سلسلہ خصوصاً لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمول ہوگیا تھا۔
بعض لوگ صرف اس وجہ سے کہ کسی دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چاہتے ایسی مسجدوں میں عیدین کی نماز پڑھنے پر اصرار کررہے ہیں جس میں سو آدمی بھی نہیں آسکتے، اس سلسلہ میں شرعی حکم کیا ہے؟
(2) اصل عیدگاہ میں نماز پڑھنا ہے یا مسجدوں میں؟
(3) کیا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی مسجد نبوی میں عید کی نماز پڑھنا ثابت ہے؟
اور کیا بغیر کسی وجہ اور معقول عذر کے ایسا کیا جاسکتا ہے؟
(4) بعض حضرات فقہاء نے عیدگاہ کے متعینہ وقت اور نماز سے پہلے عید کی نماز کو ناپسندیدہ (مکروہ) کہا ہے یہ کراہت کیسی ہے؟ اور بغیر کسی وجہ کے صرف ذاتی اختلاف کی وجہ سے عیدگاہ سے پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پر دوسری نماز کرنا کیسا ہے؟
(5) کیا ایک عید گاہ میں جگہ کی تنگی اور نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے دوبارہ عید کی نماز ہوسکتی ہے؟
(6) کیا عیدگاہ کے آبادی کے بیچ آجانے سے اس کی عید گاہ کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے؟
یہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب عیدگاہ آبادی کے بیچ میں آگئی تو پھر کچھ پابندی نہ رہی، چاہے دوسرے لوگ عید کی نماز عید گاہ سے پہلے پڑھیں یا مسجدوں میں پڑھیں، اب عیدگاہ کالعدم ہوگئی۔
امید کہ احادیث شریفہ اور کتب فقہ کی تصریحات سے واضح فرمائیں گے۔
المستفتی: (مولانا) نور الحسن راشد کاندھلوی۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: (1) عیدین کی نماز واجب ہے، اور اس کے لئے کھلے میدان میں نکل کر ادا کرنا مسنون ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہی تھی وہ آبادی سے باہر عیدگاہ جاکر عیدین کی نماز ادا فرماتے تھے، بلا عذر طاقتور لوگوں کا عیدگاہ چھوڑ کر مسجد میں عیدین کی نماز ادا کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے، سنت کا ثواب نہیں حاصل ہوگا، نیز شریعت کے منشاء ومقصود (اجتماع عظیم) کو فوت کرنے اور اسلام کی شان وشوکت میں کمی کرنے کے مترادف ہے اس لئے لاک ڈاؤن کے زمانے میں مجبوراً ہر چھوٹی بڑی مسجد میں جو عید کی نماز شروع ہوئی تھی اسے اب بند کردینا چاہئیے۔
اسی طرح محض اپنی تن آسانی کے لئے مسجد میں نماز عید قائم کرنے پر اصرار کرنا شرعاً کسی طرح درست نہیں ہے۔
(2) عید کی نماز اصل عید گاہ ہی میں ادا کرنا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا عذر کے مسجد میں عید کی نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
(3) جی سنن ابو داؤد وابن ماجہ اور مستدرک حاکم کی روایت سے عذر کی بنیاد پر مسجد نبوی میں عید کی نماز پڑھنا ثابت ہے۔
(4) گرچہ عید کی نماز عید گاہ میں ہی پڑھنا افضل ہے پھر بھی اگر ضرورت ہو تو عیدگاہ کی جماعت سے پہلے شہر کی دیگر مساجد میں عید کی نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے۔
(5) عیدگاہ پر نماز عید کی دوسری جماعت بلا کراہت جائز ہے یانہیں؟ اس سلسلہ میں عربی کی معتبر کتب فقہ میں صریح جزئیہ نہیں ملا، البتہ نماز کے حق میں عیدگاہ کو مسجد کی طرح قرار دیا گیا ہے، اس پر قیاس کرکے مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ وغیرہ نے عیدگاہ میں دوسری جماعت کو بلا عذر مکروہ لکھا ہے، اس لئے بلا عذر دوسری جماعت کی اجازت نہیں، لیکن اگر عید گاہ چھوٹی پڑگئی ہے اور مجمع اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ ایک ساتھ سب لوگوں کا یکبارگی نماز پڑھنا عیدگاہ میں ممکن نہیں ہے، تو ایسی صورت میں دوسری جماعت کی گنجائش ہے، لیکن اس جماعت کا امام بھی دوسرا ہونا چاہئے، پہلے امام کے پیچھے نماز نہ ہوگی۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ قدیم: 5/ 35)۔
(6) عیدگاہ کا شہر سے باہر صحرا میں ہونا سنت ہے، فقہاء کرام کی عبارتوں میں اس کے لئے “جبانہ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی جنگل کے ہیں، اس لئے جو عیدگاہ آبادی کے اندر آجائے تو اس میں نماز پڑھنے اور عام بڑی مسجدوں میں نماز پڑھنے کے درمیان فضیلت میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ (مستفاد فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل: 8/ 414، کتاب المسائل: 1/ 437)۔
الدلائل
ولو صلی العید فی الجامع ولم یتوجه إلی المصلی فقد ترك السنة ۔ (البحرالرائق: 2/ 287).
قوله: المصلى العام، وهو الذي يكون في الصحراء، أفاده في البحر. (الطحطاوي على الدر: 1/ 560).
ويخرج إلى المصلى لصيغة المجهول وهو موضع في الصحراء يصلى فيه صلاة العيدين، ويقال له الجبانة، …… لكن الخروج إلى الجبانة سنة مؤكدة. (عمدة الرعاية على شرح الوقاية: ص: 17).
عن أبي هريرة رضي الله عنه أنهم أصابهم مطرٌ في يوم العيد، فصلَّى بهم النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العيد في المسجد.
قال الحافظ ابن حجر في التلخيص: إنه أخرجه أبو داود، وابن ماجه، والحاكم، وإسناده ضعيف؛ اهـ
عن إسحاق أن علیاً أمر رجلًا یصلي بضعفة في المسجد رکعتین (المصنف لابن أبي شیبة: 4/ 238، رقم: 5865).
ويجوز إقامتها في المصر وفنائه في موضعين فأكثر. (غنية المستملي: ص: 529).
ولو ضحى بعد ما صلى أهل المسجد ولم يصل أهل الجبانة أجزأه استحسانًا؛ لأنه صلاة معتبرة. (رد المحتار: 9/ 460، زكريا).
ولو ضحى بعد ما صلى أهل المسجد ولم يصل أهل الجبانة أجزأه استحسانًا؛ لأنه صلاة معتبرة، حتى لو اكتفوا بها أجزأتهم، وقال العلامة ابن الهمام: لأن كون صلاة أهل المسجد صلاة معتبرة لا ينافي كون صلاة أهل الجبانة أيضاً صلاة معتبرة. (الهداية مع فتح القدير: 9/ 527، زكريا).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
الجواب صحيح: مجد القدوس خبيب رومي، عفا الله عنه، دار الافتاء مدرسه عربي مظاهر علوم سهارن فور
18- 11- 1444ھ 8-6- 2023م الخمیس
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.