plastic surgery

پلاسٹک اور کاسمیٹک سرجری كا شرعى حكم

 پلاسٹک اور کاسمیٹک سرجری كا شرعى حكم

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

ہمارا جسم اللہ کی ملکیت ہے ، بطور امانت ہمیں دی گئی ہے، ہم اس کے مالک و مختار نہیں کی اپنی مرضی کے مطابق اس میں تغیر و تبدیل اور کاٹ چھانٹ کرتے رہیں اور گزر چکا ہے کہ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی شیطانی بہکاوے کا نتیجہ ہے اور اسی بنیاد پر حدیث میں خوبصورتی کے لئے اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے امام طبری مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

کسی عورت کے لئے اللہ کی پیدا کردہ بناوٹ میں خوبصورتی کے مقصد سے کمی اور زیادتی جائز نہیں ہے جیسے کہ کسی کے بھوں کے بال ملے ہوئے ہوں اور وہ فاصلہ پیدا کرنے کے لئے بالوں کو اکھاڑ دے۔۔۔ البتہ اگر اس کی وجہ سے ضرر اور تکلیف ہو جیسے لمبے دانت کی وجہ سے کھانے میں پریشانی ہو رہی ہو یا زائد انگلی کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہو تو دانت اکھاڑ دینے اور انگلی کاٹ دینے کی اجازت ہے (فتح الباری: 10/462)

البتہ علاج کے مقصد سے جسم کے کسی حصے کو چیرنے پھاڑنے اور کاٹنے کی اجازت ہے (دیکھئے الہندیۃ: 5/360)

اور بدنما عیب بھی ایک نفسیاتی مرض ہے لہذا اسے دور کرنے کے لئے بھی کاٹ چھانٹ کرنا یا پلاسٹک سرجری کرانا درست ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

عن قتادة قال كنت يوم أحد أتقي السهام بوجهي عن وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان آخرها سهما ندرت منه حدقتي، فأخذتها بيدي و قلت: يا رسول الله إن لي امرأة أحبها وأخشى أن تراني تقذرني و قال له صلى الله عليه وسلم إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت رددتها ودعوت الله تعالى لك، فقال: يا رسول الله إن الجنة لجزاء جزيل، وعطاء جليل، وإني مغرم بحب النساء. وأخاف أن يقلن أعور فلا يردنني، ولكن تردها وتسأل الله تعالى لي الجنة فردها ودعا لي بالجنة(السيرة الحلبية: 2/252 نیز دیکھئے زادالمعاد:3/197 البدایہ والنہایہ 4/34)

حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے موقع پر اپنے چہرے کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کو تیروں کی بوچھار سے بچا رہا تھا اور آخر میں ایک تیر میری آنکھ میں لگا اور میری آنکھ باہر نکل آئی میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھے گی تو مجھ سے بدک جائے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو صبر کرو اور اس کے بدلے میں تمہارے لیے جنت ہے اور چاہو تو تمہاری آنکھ لوٹا دوں اور تمہارے لیے اللہ سے دعا کروں . میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جنت تو بڑی خوبصورت جزا اور بہترین تحفہ ہے اور میں عورتوں کا دلدادہ ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں گی یہ کانا ہے اور مجھ سے محبت نہیں کریں گی ؛ اس لئے آپ میری آنکھ لوٹا دیجئے اور اللہ تعالی سے میرے لیے جنت کی دعا کر دیجیے چنانچہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ لوٹا دی اور میرے لیے جنت کی دعا فرمائی۔

اور حضرت رافع بن مالک کہتے ہیں:

رميت بسهم يوم بدر ، ففقئت عيني ، فبصق فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا لي فما آذاني منها شيء(السيرة النبوية لابن كثير: 2/447)

جنگ بدر کے موقع پر تیر لگنے کی وجہ سے میری آنکھ پھوٹ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا تھوک لگایا اور دعا فرمائی تو پھر اس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

اور فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب البدائع میں ہے:

وإعادة جزء منفصل إلى مكانه ليلتئم يجوز كما إذا قطع شيء من عضوه فأعاده إلى مكانه ولا إهانة فی استعمال جزء نفسه فى الإعادة إلى مكانه.

اگر جسم کا کوئی حصہ الگ ہوجائے تو جوڑنے کے مقصد سےاس کی جگہ پر لگا دینا جائز ہے ۔جیسے کہ جب جسم کا کوئی حصہ کٹ جائے تو اسے اس کی جگہ پر لگا دینا درست ہے ۔اور اپنے جسم کے کسی حصے کو اس کی جگہ پر لگانے میں کوئی اہانت نہیں ہے۔(البدائع 5/331)

لہٰذا اگر آنکھ ترچھی یا بہت چھوٹی ہو، ہونٹ کٹا ہوا ہو، ناک ٹیڑھی ہو، ہاتھ پیر میں پانچ کی جگہ چھ انگلیاں ہوں، کان کی بناوٹ عام وضع کے خلاف ہو یا جلنے، کٹنے کی وجہ سے چہرہ وغیرہ پر نشان پڑ گیا ہو تو پلاسٹک سرجری کے ذریعے درست کرانا جائز ہے ؛ کیونکہ غیر طبعی بناوٹ اور عیب کو ختم کرنا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کے حکم میں داخل نہیں ہے۔

لیکن پھیلی ہوئی ناک کو پتلی اور اونچی بنانا، موٹے ہونٹ کو باریک کرنا، ٹھوڑی کو حسب خواہش شکل دینا، پستان کو ابھارنا یا چھوٹا کرنا، عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے پڑنے والی جھری کو ختم کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ سب محض خوبصورتی اور خوشنمائی کے لیے اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنا ہے۔

البتہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بعض چیزیں عمومی انداز میں خوبصورتی اور خوشنمائی کے لیے اختیار کی جاتی ہیں مگر انفرادی طور پر وہ کسی کے حق میں ضرورت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں جیسے کہ بھدی ناک کی وجہ سے کسی لڑکی کے رشتہ میں دشواری پیش آرہی ہے اور اس کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر کے لوگ اذیت میں مبتلا ہوں تو بدرجہ مجبوری اس کے لیے پلاسٹک سرجری کی اجازت ہو سکتی ہے۔

غرضیکہ کہ ضرر اور عیب کو دور کرنے کیلئے پلاسٹک سرجری کی اجازت ہے اور محض خوبصورتی کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply